Thursday, October 31, 2019

Hazrat Sayyeduna Abdullah R.A[حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ]

Hazrat Sayyeduna Abdullah R.A[حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ]

حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ


Best Web Hosting in Pakistan
حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عبد المطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ محترم ہیں۔ آپ کا اسمِ گرامی عبداللہ، کنیت ابوقُثَم (خیر و برکت سمیٹنے والے)، ابومحمد، ابواحمد اور لقب ذبیح ہے۔آپ کے والدِ گرامی عبد المطلب قریشِ مکّہ کے راہنما اور بنوہاشم کے سردار تھے ان کا اصل نام شَیبَہ ہے اور لوگ اچھے کاموں کی وجہ سے انہیں شَیْبَۃُ الْحَمْدْ کہتے تھے۔والدہ ماجدہ کا اسمِ گرامی فاطمہ بنتِ عمرو ہے۔
حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نےیہ منّت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے ہوں اور وہ بڑے ہو کر قریش کی حفاظت کریں تو ان میں سے ایک کو رضائے الٰہی کے لئے بیتُ اللہ کے پاس ذَبْحْ کریں گے۔ جب ان کی منت پوری ہوگئی تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور اپنی منّت کی خبر دے کر یہ منت پوری کرنے کوکہا، سب نے والد کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔
ان دس بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا گیا تو حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کانام قرعہ میں نکلا۔ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ انہیں ذَبح کرنے کیلئے حرمِ محترم لے آئے اس موقع پر قریش نے ان سے درخواست کی کہ ان کو ذَبح نہ کیجئے جب تک آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہر شخص اپنے بچّے کو لایا کرے گا کہ اس کو ذبح کرے۔ قریش نے ایک تجویز پیش کی کہ ان کو ذبح نہ کیجئے بلکہ انہیں حجازلے چلئے وہاں ایک کاہنہ عورت ہے آپ اس سے مسئلہ بیان کریں، اگر اس نے بھی ان کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو پھر آپ کو اپنے صاحبزادے کے ذبح کرنےکا مکمل اختیِار ہو گا اور اگر اس نے کوئی ایسا حل پیش کیا جس سے آپ کی منت بھی پوری ہو جائے اور عبداللہ ذَبح ہونے سے بھی بچ جائیں تو آپ اس تجویز کو قبول فرما لیجئے۔

سب اس عورت کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا سنایا۔اس عورت نے کہا کہ تمہارے ہاں جو دِیت کی مقدار مقرّر ہے یعنی دس اونٹ،تم اونٹوں اور ان کے درمیان قُرعہ اندازی کرو اور اگر لڑکے کے نام کا قرعہ نکلے تو اونٹوں کی مقدار بڑھا دو اور اس طرح کرتے رہو یہاں تک کہ تمہارا پَرْوَرْدَگار راضی ہو جائے اور اونٹوں پر قُرعہ نکل آئے۔ پھر اس لڑکے کی بجائے وہ اونٹ ذبح کر دینا اس طرح تمہارا رب بھی تم سے راضی ہوجائے گا اور تمہارا لڑکا بھی بچ جائے گا۔ یہ سُن کر سب مکّۂ مکرّمہ پہنچے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی ہوئی تو حضرت عبداللہ کا نام آیا۔ دس اونٹ زیادہ کئے اور جب بڑھاتے بڑھاتے اونٹوں کی تعداد سو ہو گئی تو تب اونٹوں کےنام قُرعہ نکلا۔ وہاں موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مبارَک دی۔ حضرت عبدالمطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک تین بار اونٹوں کا نام نہیں نکلے گا تب تک میں اس قرعہ کو تسلیم نہیں کروں گا چنانچِہ یہ عمل تین بار دہرایا گیا اور ہر بار اونٹوں پر ہی قرعہ نکلا۔ تب حضرت عبدالمطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تکبیر کہی اور صفا و مروہ کے درمیان اونٹوں کو لے جا کر قربان کر دیا۔
حضرت ِسیِّدُنا عِکْرِمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ان دنوں یہ اصول تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیئے جائیں۔ حضرت عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کا بدلہ ۱۰۰ اونٹ دیا۔جس کے بعد قریش اور عرب میں بھی یہی دستور ہو گیا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس کو برقرار رکھا۔

ذبح کے واقعہ کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مکّۂ مکرّمہ کی بہت سی حسین وجمیل لڑکیوں اور عورتوں نے آپ کے حسن و جمال سے متأثر ہو کر آپ سے نکاح کی بھر پور کوشش کی حتّٰی کہ بعض نے بڑی دولت کی بھی پیشکش کی۔
اہلِ کتاب بعض نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبیِّ آخرُالزّماں سرورِ کون و مکاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وجودِ گرامی حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صُلْب (پیٹھ) میں ودیعت(امانت) ہے، اس لئے یہود کی ایک جماعت نے یہ عہد کیا کہ جب تک حضرت عبداللہ کو قتل نہ کر دیں واپس نہیں لوٹیں گے۔ ایک دن آپ شکار کے لئے تنہا مکّہ سے باہر تشریف لائے، ان بد بختوں نے موقع غنیمت جان کر حملہ کے لئے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔ لیکن حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حفاظت کےلئے آسمان سے کچھ سوار نمودار ہوئے اوران بدکردار یہودیوں کو قتل کر دیا۔ اتفاق سے حضرتِ سیّدَتُنا آمِنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے والد ماجد حضرتِ وہْب بن عبد مناف نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ان کے دل میں حضرت عبداللہ کی عظمت بیٹھ گئی اور آپ نے حضرت عبد المطلب سے اپنی نورِ نظر حضرت آمِنہ کے نکاح کی خواہش ظاہر کی جو قبول کر لی گئی یوں حضرت عبداللہ کا حضرت آمنہ سے نکاح ہوگیا۔
حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قریش کے ایک قافلِے کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام گئے۔ دوران سفر بیمار ہو گئے۔ واپسی پر یہ قافلہ مدینۂ منوّرہ کے پاس سے گزرا تو حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہونے کی وجہ سے مدینہ ہی میں اپنے والد عبدالمطلب کے ننھیال بنو عدی بن نجار کے ہاں ٹھہر گئے اور وہیں۲۵ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Wednesday, October 30, 2019

Peer Syed Mehr Ali Shah R.A[حضرت پیر مہر علی شاہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ]

Peer Syed Mehr Ali Shah R.A[حضرت پیر مہر علی شاہ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ]

حضرت سیِّدُناپیر مہرعلی شاہ گولڑوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


Best Web Hosting in Pakistan
حضرت سیِّدُناپیر مہرعلی شاہ گولڑوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یکم رمضان المبارک۱۲۷۵ ھ مطابق۱۸۵۹ء بروز پیر گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی (پنجاب،پاکستان)میں پیدا ہوئے. آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید نذر دین شاہ اور دادا کا اسم مبارک سید غلام شاہ تھا.آپ کے نسب پاک کا سلسلہ۲۵واسطوں سے حضرت سید نا غوث اعظم محی الدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ عنه اور ۳٦ واسطوں سے حضرت سیدنا امام حسن رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ عنه سے جا ملتا ہے.آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت معصومہ بنت سید بہادر شاہابن سید شیر شاہ تھا.آپ نجیب الطرفین سید تھے.آپ کے پردادا پیر سید روشن دین اور ان کے چھوٹے بھائی پیر سید رسول شاہ کو علاقہ پوٹھوہار کی ولایت باطنی پر مامور کیا گیا تھا.آپ کے جد اعلا بارھویں صدی ہجری کے آخر میں ساڈھو ضلع انبالہ ہندوستان سے ہجرت کر کے اس قصبے میں سکونت پذیر ہوئے.
قرآن پاک کی تعلیم خانقاہ اور عربی فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم کے لیے آپ کے والد بزرگوار کے ماموں پیر فضل دین شاہ گیلانی نے ہزارہ کے مولوی غلام محی الدین کو مقرر فرمایاجنھوں نے آپ کو کافیہ تک تعلیم دی.اس کے بعد موضع بھوئی (تحصیل حسن ابدال) میں مولانا محمد شفیع قریشی کے مدرسے میں دو اڑھائی سال تک تعلیم حاصل کی۱۵سال کی عمر میں علی گڑھ جا کر حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے درس میں اڑھائی سال تک رہے.

سہارن پور میں فن حدیث کے امام مولانا احمد علی سہارنپوری سے بخاری شریف،مسلم شریف اور کتب الحدیث کی سند حاصل کی ۲۰سال کی عمر میں ہندوستان سے تمام علوم رسمیہ کی تکمیل کر کے وطن لوٹے اور اپنی آبائی مسجد میں درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا.آپ کی شادی اپنے ننھیال میں سید چراغ علی شاہ کی دختر نیک اختر سے حسن ابدال میں ہوئی۱۸۸۹ء کو بیت اللہ شریف اور روضۂ رسولﷺ پر حاضر ہوئے.
سیِّدُناپیر مہرعلی شاہ نے تمام عمر تدریس علوم دینیہ اور تزکیہ نفوس بشریہ میں فرمائی۱۸ اگست۱۹۳۳ء کو علامہ اقبال نے آپ کو عریضہ ارسال کر کے ’’زمان و مکاں‘‘پر حضرت شیخ اکبر کی تعلیمات اور ان کی کتب کے حوالہ جات کے بارے میں استفسار کیا اور لکھا’’اس وقت ہندوستان میں کوئی اور دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے.‘‘قادیانت کی بروقت تردید اور سدباب میں آپ نے تاریخی کردار ادا کرتے ہوئے ۱۹۰۰ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کو شکست فاش دی.
سیِّدُناپیر مہرعلی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کئی کتب بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:سیف چشتیائی،شَمْسُ الْھِدَایَة،تَحْقِیْقُ الْحق،اَلْفُتُوْحَاتُ الصَّمَدِیَّة ،اِعْلاءُ کَلِمَة ِ اللّٰهِ فِی بِیانِ مَااُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰه اورفتاویٰ مِہریہ۔
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بروز منگل ۲۹ صفرالمظفر ۱۳۵٦ھ مطابق ۱۱مئى ۱۹۳۷ء کو وصال فرمایا،مزار پُرانوار گولڑہ شریف ضلع اسلام آباد میں مَرجَعِ خَلائِق ہے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Tuesday, October 29, 2019

Mahe Rabi Ul Awal[ماہ ربیع الاول]

 Mahe Rabi Ul Awal[ماہ ربیع الاول]

ربیع الاول


نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

Best Web Hosting in Pakistan
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول شریف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ ١٢ ربیع الاول شریف بروز پیر، مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ ١٢ ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی دس تاریخ کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیوں کہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ
بارھویں ربیع الاول مبارک کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا۔ مساکین کو کھانا کھلانا۔ اور میلاد شریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام سال امن و امان عطا فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ مبارک میں چراغاں،سبز پرچم لہرانے چاہئیں اور بارہویں تاریخ کو بالخصوص جلوس میلاد شریف اور مجالس منعقد کیا کریں

حکایت:ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا ۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی ۔ تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔
جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا۔ تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں ۔
ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزاء اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا ۔ الحمدللہ ربّ العالمین ۔میلاد پاک کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
انعقادِ میلاد، اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے:محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود خالق اکبر جل شانہ، نے بیان کیا ہے ۔لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان (کنزالایمان)۔
اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ”مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے” یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ”وہ رسول تم میں سے ہیں” اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ”تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں” یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔

میلاد بیان کرنا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو ،
فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا (رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف رضی اللہ تعالی عنہ ٥١٣)۔
ترجمہ: پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کئے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔
اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔
ماہِ ربیع الاول شریف کیلئے خصوصی ہدایات:ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہئے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی ؐ کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھئے، کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجئے۔
Unlimited Web Hosting
ایک خاص تحفہ:ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کر اپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں، درود شریف تین مرتبہ پڑھیں پھر۔۔۔۔۔۔اَللّهُ نَاصِرٌ ۔۔۔۔۔۔ اَللّٰهُ حَافِظٌ ۔۔۔۔۔۔ اللّٰهُ الصَّمَد۔۔۔۔۔۔٣١٣ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔

islamic events © 2019,

Saturday, October 26, 2019

dhoka[دھوکا]

dhoka[دھوکا]

دھوکا


Best Web Hosting in Pakistan
کھوئی ہوئی چیزوہیں سے مل جاتی ہے جہاں وہ گمُی تھی سوائے اعتبار(اعتماد) کے، کیونکہ جس شخص کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہوجائے دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے ،اعتبار ختم ہونے میں اہم کردار" دھوکے "کا بھی ہے۔ جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیاچیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے توحقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔دھوکہ دینے کی بُری عادت نے تاجر اور گاہک، مزدور اور سیٹھ ،ڈاکٹر اور مریض کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کردیا ہے ، گاہک ڈرتا ہے کہ کہیں دکاندار پوری قیمت لے کر مجھے غیر معیاری چیز نہ تھما دے اور دکاندار کو خوف ہے کہ کہیں گاہک مجھے نقلی نوٹ نہ دے جائے۔
موجودہ دور میں جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبار کا رشتہ مضبوط ہے وہ سکھی اور جنہیں کسی نے دھوکا دیا ہو وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں،دھوکا دینے والے سے اللہ عزوجل کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم نے ناپسندیدگی کااظہار کیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّایعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم)علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کسی چیز کی(اصلی)حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔مثلاًکسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا، جعلی یا ملاوٹ والی چیزوں کواصلی اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ

فی زمانہ دھوکے اور فراڈ کی نت نئی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں، کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے قرعہ اندازی میں انعام نکل آنے،یا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا شروع کردیتا ہے تو کہیں کوئی کسی کی زمین کے جعلی کاغذات دِکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے اورکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو دُکھ وتکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا،جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا ہوگا ،چنانچہ حسابِ ِآخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیا میں سچی توبہ کرکے اپنا حساب بے باک کرلیں کہ جس جس سے رقم ہتھیائی ہے اس کو واپس کریں یا معاف کروالیں ،اگر وہ زندہ نہ ہوتو اس کے وارثوں کو ادائیگی کریں یا معاف کروا لیں ۔اسی طرح مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی سے بھی کوئی مالی لین دَین کرتے وقت تحریری معاہدہ کریں اور اس پر گواہ قائم کرلیں اور معاشرتی معاملات مثلاً رشتہ وغیرہ طے کرنے میں بھی ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد مطمئن ہوں تو ہی بات آگے بڑھائیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں دھوکادینے اوردھوکا کھانے سے بچائے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Thursday, October 24, 2019

Wilayat(auliya allah) [وِلایت(اولیاءُاللہ)]

Wilayat(auliya allah) [وِلایت(اولیاءُاللہ)]

وِلایت(اولیاءُاللہ)۔


Best Web Hosting in Pakistan
وِلایت ایک قُربِ خاص ہے کہ مولیٰ عَزَّوَجَلَّ اپنے بَرْگُزیدہ(پسندیدہ) بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔وِلایت اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ اِنعام ہے، نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ(سخت مشکل اعمال)سے آدمی خود حاصل کرلے، البتّہ اکثر اوقات اعمالِ حَسَنہ اِس عطیّۂ الٰہی کے لئے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداءً مل جاتی ہے۔
اولیاءُاللہ دو قسم کے ہیں: (۱)تَشْریعی ولی اور (۲)تَکْوِیْنی ولی۔ (۱)تَشْریعی ولی یعنی ”اللہ سے قُرب رکھنے والے اولیاء“ حضور کی اُمّت میں بے شُمار ہیں جہاں چالیس صالح مسلمان جمع ہوں وہاں ایک دو ولی ضَرور ہوتے ہیں۔ (۲)تَکْوِیْنی ولی وہ کہ جنہیں عالَم میں تَصرُّف کا اختیار دیا گیا ہو، ان کی مخصوص جماعت ہے جیسے غوث، قُطْب، اَبْدال وغیرہ ان کی مختلف اقسام ہیں اور یہ تمام قِیامت کے ڈَر اور رَنج سے یا دنیا کے مُضِر خوف و غم سے محفوظ ہیں۔
عُلَمائے کرام نے تکوینی اولیائے کرام کی مختلف اقسام و تعداد بیان کی ہے۔ ان میں سے آٹھ کا مختصر ذِکر ملاحَظہ فرمائیے:۔
قُطْب اس سے مراد وہ عظیم انسان ہے جو زمانہ بھر میں صرف ایک ہی ہو، اسی کو ”غوث“ بھی کہتے ہیں۔ ” قطْب“ اللہ پاک کا نہایت مُقرّب اور اپنے زمانے کے تمام اولیا کا آقا ہوتا ہے۔
اَئِمّہ یہ ہر دور میں صرف دو ہوتے ہیں۔ ایک کا صفاتی نام ”عبدُالرّب“ اور دوسرے کا صفاتی نام ”عبدالمِلک“ ہوتا ہے۔ یہ دونوں قُطْب کے وزیر ہوتے ہیں اور یہی اس کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ ہوتے ہیں۔
اَوْتاد یہ ہر دَور میں صرف چار حضرات ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ پاک مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کی حفاظت فرماتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی ولایت ایک جہت(زمین کی ایک سَمْت) میں ہوتی ہے۔ ان کے صفاتی نام یہ ہیں: عبدالحیّ، عبدالعلیم، عبدالقادر اور عبدالمرید۔

اَبْدال یہ سات سے کم و بیش نہیں ہوتے۔( ابدال سے مراد” بُدَلَاء“ ہیں کیونکہ عام ابدال کی تعداد۴۰ بلکہ۷۰ بھی بیان ہوئی ہے) اللہ پاک نے انہیں پوری آباد دنیا کی حفاظت کی ذمّہ داری عطا فرمائی ہے۔ ہر بُدَل کی ایک اِقْلِیم(آباد زمین کا ساتواں حصّہ) ہوتی ہے جہاں اس کی وِلایت کا سِکّہ چلتا ہے۔
نُقَبَا ہر دور میں ۱۲نقیب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر نقیب آسمان کے۱۲ بُرجوں میں سے ایک ایک بُرج کی خاصیتوں کا عالم ہوتاہے۔ شیطان اور اس کے ان پوشیدہ مُعامَلات کو بھی جانتے ہیں جن کو شیطان خود نہیں جانتا۔ اللہ پاک نے انہیں یہ شان عطا فرمائی ہے کہ کسی شخص کے زمین پر لگے پاؤں کے نشان ہی کو دیکھ کر انہیں اس کےبد بخت اور خوش بخت ہونے کا علم ہوجاتا ہے۔
نُجَبَا ہر دور میں آٹھ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے احوال سے ہی قبولیت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ حال کا ان پر غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبہ کو صرف وہ اولیاءِ عُظّام پہچان سکتے ہیں جو مرتبہ میں ان سے اوپر ہوتے ہیں۔
رِجالُ الغیب یہ حضرات ۱۰سے کم و بیش(یعنی کم اور زیادہ) نہیں ہوتے۔ ہمیشہ ان کے احوال پَر انوارِ الٰہی کا نُزول رہتا ہے لہٰذا یہ اہلِ خشوع ہوتے ہیں اور سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ یہ مَسْتُوْر (یعنی نظروں سے اوجھل) رہتے ہیں۔ اَہْلُ اللہ جب بھی لفظ رجالُ الغیب استعمال فرماتے ہیں تو ان کا مطلب یہی حضرات ہوتے ہیں۔ کبھی اس لفظ سے نگاہوں سے اوجھل انسان اور کبھی مومن جنّ بھی مراد لئے جاتے ہیں نیز کبھی اُن لوگوں کو بھی رجالُ الغیب کہہ دیا جاتا ہے جنہیں علم اور رزق خزانۂ غیب سے عطا ہوتا ہے۔
رَجَبِی یہ ہر دور میں ۴۰ ہوتے ہیں۔ انہیں رجبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مقام کا حال صرف ماہِ رجب کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک طاری ہوتا ہے۔ البتّہ! بعضوں پر اس کیفیت کا کچھ اثر پورے سال رہتا ہے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Wednesday, October 23, 2019

juwa[جُوا ]

juwa[جُوا ]

جُوا


Unlimited Web Hosting
جو برائیاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ان میں سے ایک ”جُوا“ بھی ہے، جس کے جال میں پھنس کر کئی لوگ بربادہوچکے ہیں۔ عادی جُواریوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے مَحض تفریح کے لئے چھوٹی چھوٹی رقمیں لگانے سے جوا کھیلنے کا آغاز کیامگر رَفتہ رَفتہ اس ’’ناسور ‘‘ کے ایسے عادی ہوئے کہ اب جُوئے کی لت چھوڑنا ان کے لئے دشوار ہو گیا۔ جوئے میں انسان بہت کچھ ہارجاتا ہے چنانچہ جواری مالی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں،کچھ نہیں سُوجھتا توسود پر قرض لیتے رہتے ہیں اور ایک لمباہاتھ مارنے کے چکر میں جوئے کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں،اپنا وقت جوئے کے اڈوں میں برباد کرتے ہیں اوروہاں پر پھیلنے والی مزید برائیوں نشہ،چوری چکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کئی جواری اپنی نوکری یا کاروبار سے بھی غافل ہوجاتے ہیں،انجام کار نوکری یا کاروبار ہاتھ سے جاتا رہتا ہے، ان کی گھریلو زندگی تباہ ہوکررہ جاتی ہے ،عزت برباد ہوجاتی ہے ، ٹینشن کے مارے یہ بیمار ہوجاتے ہیں،بعض اوقات جوا کھیلنے کی پاداش میں پولیس کے ہاتھوں گِرِفْتار بھی ہوجاتے ہیں،یوں ان کو جوئے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ،جب انہیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا تو اپنی زندگی سے اتنا مایوس ہوجاتے ہیں کہ(مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّ) خودکشی جیسے حرام کام کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔
جُوئے کی تعریف جُوئے کو عربی میں قِمار کہتے ہیں، حضرت میرسیّد شریف جُرجانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّبّانی لکھتے ہیں:ہر وہ کھیل جس میں یہ شر ط ہو کہ مَغْلُوب(یعنی ناکام ہونے والے)کی کوئی چیز غالِب (یعنی کامیاب ہونے والے )کو دی جائے گی یہ”قِمار“ (یعنی جُوا) ہے۔قراٰنِ پاک میں ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ (پ۲،البقرۃ:۲۱۹)ترجمۂ کنزالایمان: ”تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے“۔

خزائن العرفان میں ہے: نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اورجوئے میں کبھی مُفْت کا مال ہاتھ آتا ہے اور گناہوں اور مفسدوں کا کیا شمار! عقل کا زوال، غیرت و حَمِیَّت کا زوال، عبادات سے محرومی، لوگوں سے عَدَاوَتیں ،سب کی نظر میں خوار ہونا ،دولت و مال کی اِضاعت(یعنی بربادی)۔
جوئے کا شرعی حکم اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلِ سنّت،امام اَحمد رضا خان فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:”جُوا بھی بَنَصِِّ قَطْعِیِ قرآن حرام ہے۔“ جبکہ جوئے سے حاصل ہونے والی رقم بھی حرام ہے چنانچہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: سُود اور چوری اورغَصَب اورجُوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے“۔
چارفرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ(۱)جس نے نَردشَیر(فارس کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ آردشیر ابن تابک گزرا ہے اس نے یہ جوا ایجاد کیا۔نرد بمعنی ہار جیت کی بازی اردشیر آردشیر سے لیا گیا اس لیے اس کھیل کا نام نردشیر رکھا گیا یعنی اردشیر کا جوا، اس کی ایجادکردہ بازی۔) سے جُوا کھیلا تو گویا اُس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبویا۔(ابنِ ماجہ) سؤر کے گوشت و خون میں ہاتھ ساننا اِسے نجس بھی کرتا ہے اور گِھناؤنا عمل بھی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی۔ (۲)جو کوئی نَرد کھیلے اس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی۔(مسندِبزار) (۳)جوشخص نَرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے،اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سؤر کے خون سے وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔(مسندامام احمد) (۴)جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جُوا کھیلیں،تو اُس (کہنے والے) کو چاہئے کہ صدقہ کرے۔ (مسلم) یعنی جُوا کھیلنا تو درکنار اگر کسی کو جُوا کھیلنے کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا دوسرا مال صدقہ کردے تاکہ اس اِرادے کا یہ کفارہ ہوجائے۔اس سے معلوم ہوا کہ ارادۂ گناہ بھی گناہ ہے،یہ ہی مذہبِ جُمْہور ہے۔

جوئے سے توبہ کا طریقہ:جُوا کھیلنے والا اگر نادم ہوا تو اُس کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہیعَزَّ وَجَلَّ میں سچّی توبہ کرے مگر جو کچھ مال جیتا ہے وہ بدستور حرام ہی رہے گا اس ضِمْن میں راہنمائی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہل سنّت، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے اور اس سے بَراء َ ت (یعنی نَجات)کی یِہی صورت ہے کہ جِس جِس سے جتناجتنا مال جِیتاہے اُسے واپَس دے، یا جیسے بنے اُسے راضی کرکے مُعاف کرالے۔ وہ نہ ہو تو اُس کے وارِثوں کو واپَس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالِغ ہوں ان کا حصّہ اُن کی رِضامندی سے مُعاف کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس کی مُعافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا پتا کسی طرح نہ چلے، نہ اُن کا، نہ اُن کے وَرَثہ کا ، اُن سے جس قَدَر جیتا تھا اُن کی نیّت سے خیرات کردے، اگرچِہ (خود) اپنے (ہی) محتاج بہن بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:غَرَض جہاں جہاں جس قَدَر یاد ہو سکے کہ اِتنامال فُلاں سے ہار جیت میں زیادہ پڑاتھا، اُتنا تو انہیں یا اُن کے وارِثوں کو دے، یہ نہ ہوں تواُن کی نیّت سے تصدُّق (یعنی صدقہ )کرے، اورزیادہ پڑنے کے یہ معنیٰ کہ مَثَلًا ایک شخص سے دس بار جُوا کھیلا کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اُس(یعنی سامنے والے جواری)کے جیتنے کی(رقم کی)مقدار مَثَلًا سو روپے کو پہنچی، اور یہ(خود)سب دَفعَہ کے مِلا کر سوا سو جیتا، تو سو سو برابر ہو گئے، پچیس اُس (یعنی سامنے والے جواری)کے دینے رہے۔ اِتنے ہی اسے واپس دے۔ وَعَلٰی ھٰذَا القِیاس (یعنی اور اسی پر قیاس کر لیجئے) اورجہاں یاد نہ آئے کہ(جُوا کھیلنے والے)کون کون لوگ تھے اور کتنا(مال جُوئے میں جیت)لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ (مِقدار کا) تخمینہ (تَخ۔مِی ۔ نَہ ۔ یعنی اندازہ)لگائے کہ اِس تمام مدّت میں کس قَدَر مال جوئے سے کمایا ہوگا اُتنا مالِکوں(یعنی اُن نامعلوم جواریوں) کی نیّت سے خیرات کردے، عاقِبت یونہی پاک ہوگی۔ وَاللہ تَعَالٰی اَعْلَم۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Tuesday, October 22, 2019

Qabar Ka Dabana[ قَبْر کا دبانا ]

Qabar Ka Dabana[ قَبْر کا دبانا ]

قَبْر کا دبانا


Unlimited Web Hosting
بَرْزَخ (موت کے بعد سے دُنیا و آخرت کے درمیان عالمِ بَرزَخ ہے۔) میں پیش آنے والے معاملات میں سے ایک ضَغطَۃُ الْقَبر یعنی قَبْر کا دبانا بھی ہے، حضرت سیّدنا سعید بن مسَیَّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا : اے عائشہ! منکَرنکیر(سوالاتِ قَبْر کرنے والے فرشتوں) کی آواز مؤمنوں کے کانوں کوایسی محسوس ہوگی جیسا کہ آنکھوں میں اِثمد سُرمہ اور مؤمنین کو قَبْر کا دَبانا ایسا ہوگا جیسے کہ شفیق ماں سے جب بچّہ دردِ سر کی شکایت کرتا ہے تو ماں نَرْمی سے اس کا سَر دَباتی ہے، لیکن عائشہ! خرابی ہے اللہ پاک کی ذات میں شک کرنے والوں کیلئے انہیں قبر میں یُوں دَبایا جائے گا جیسے چَٹان کسی انڈے کو دَبائے۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نیک کاروں کوبھی تنگیِ قَبْر ہوتی ہے مگر وہ خدا کی رحمت ہے جیسے ماں پیار سے بچّے کو گود میں دَباتی ہے جس سے بچّہ گھبراتاہے۔
مسلمان و کافر سبھی کو قَبْر دَباتی ہے البتّہ دونوں کو دبانے میں فرق ہے جیسا کہ علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر میّت مسلمان کی ہے تو اُس کا دَبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے دُور دَرَاز کے سفر سے واپس لوٹے بچّے کو ماں پیار کی وجہ سے زور سے چپٹا لیتی ہے۔ اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دَباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض مؤمنین بلکہ صحابی حضرت سعد بن مَعاذ رضی اللہ عنہ جیسے بزرگانِ دین کے لئے قبر کا دبانا ایسا ہی ہے جیسے کہ بیٹے کی ملاقات کی مُشتاق ماں کا اس سے گلے ملنا۔

قبر کے دبانے کا ایک سبب:امام ابنِ ابی دنیا رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : قبر کے دبانے کا سبب یہ ہے کہ قبر انسانوں کیلئے ماں کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ان کی پیدائش اسی زمین سے ہوئی، پھر وہ کافی عرصہ زمین سے دُور رہے تو جب بعد وفات اپنی اصل کی طرف لوٹتے ہیں تو زمین انہیں ویسے ہی دَباتی ہے جیسے کسی ماں کا بیٹا سفر سے واپس آئے تو ماں اسے سینے سے چمٹاتی ہے۔ یعنی جو خداوندِ کریم کا اِطاعت گزار ہوتا ہے اسے نرمی و مَحَبّت سے دَباتی ہے اور جو گُناہ گار ہوتا ہے اس پر ربِّ پاک کی خاطِر ناراض ہوتے ہوئے سختی سے دَباتی ہے۔
فرماں بردار کو دبانے کی وجہ:حضرت سیِّدُناامام نَسَفِی رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا:فرماں بردار مسلمان کو عذابِِ قبر نہیں ہو گا لیکن اسے قَبْر دَبائے گی اور وہ اس کی تکلیف اور خوف کو محسوس بھی کرے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی نعمتوں میں رہا لیکن کما حَقُّہٗ ان کا شکر اَدا نہ کر سکا۔
ضَغطَۃُ الْقَبر سے محفوظ و مامون شخصیات:انبیائے کرام علیہم الصّلاۃ والسَّلام کو قبر نہیں دباتی۔ فُقَہا فرماتے ہیں کہ مجاہد اور مُرابط(اسلامی سرحد کی حفاظت کرنے والے) سے حسابِِ قبر بھی نہیں ہوگا اور تنگیِ قبر و حسابِِ قبر سے محفوظ رہے گا۔
ضَغطَۃُ الْقَبر سے حفاظت کا عمل: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے مَرَضُ الموت میں سورۃُ الْاِخْلاص کی تلاوت کی وہ فتنۂ قبر میں مبتلا نہیں ہوگا اور قبر کے دبانے سے بھی مامُون رہے گا۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Monday, October 21, 2019

cheenk[چھینک]

cheenk[چھینک]

چھینک


Unlimited Web Hosting
چھینک ہر چھوٹے بڑے کو آتی ہے۔ جب کسی کو چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے تو فَرِشتے کہتے ہیں: رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اوراگرچھینکے والا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِِّ الْعٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو فَرِشتے کہتے ہیں: رَحِمَكَ اللهُ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رَحم فرمائے۔(حدیث)بہتریہ ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے، سننے والے پر واجِب ہے کہ فو راً ’’یَر حَمُکَ اللّٰہ‘‘( یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے)کہے اور اِتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا سن لے۔ جواب سُن کر چھینکنے والاکہے: یَغْفِرُاللّٰہُ لَنَا وَ لَکُمْ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری اور تمہاری مَغفِرت فرمائے) یا یہ کہے :’’یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ‘‘(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہِدایت دے اورتمہارا حال دُرُست کرے) چھینک کے وَقت سر جھکایئے ، منہ چُھپایئے اور آوا ز آہِستہ نکالئے، چھینک کی آواز بُلند کرنا حَماقت ہے ۔
جو کوئی چھینک آنے پراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے اور اپنی زبان سارے دانتوں پر پھیر لیا کرے تو اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دانتوں کی بیماریوں سےمَحفوظ رہے گا۔
حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:جوکوئی چھینک آنے پراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِِّ حَال کہے تو وہ داڑھ اور کان کے درد میں کبھی مبتَلانہیں ہوگا(حدیث)۔
چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجِب ہے، دوسری بار چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو دوبارہ جواب واجِب نہیں بلکہ مُستَحَب ہے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Saturday, October 19, 2019

naqshe qadam[ نقشِ قدم]

naqshe qadam[ نقشِ قدم]

نقشِ قدم


Best Web Hosting in Pakistan
فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اَلبَرَکَۃُ مَعَ اَکَابِرِکُم یعنی بَرَکت تمہارے بُزُرگوں کے ساتھ ہے۔(حدیث) بُزُرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم کے نقشِ قدم پر چلنا بہت بڑی سعادت ہے کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلامی احکامات کے مطابق گزارنے کی کوشش کی، دنیا و آخرت کی کامیابیاں ان کا مقدر بنیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَحکامات پر اِسی طرح سرِ تسلیم خم کریں جیسے ان بُزُرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم نے کیا تھا، ان پاکیزہ ہستیوں کی کتابِ زندَگی کا ایک ایک صَفْحہ ہمارے لئے راہنُمائی کی دستاوِیز ہے۔
اگر کسی کو بچپن ہی سے ماں باپ کی جُدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے تو وہ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی آزمائش یاد کرے کہ کس طرح آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی والِدہ ماجِدہ رحمۃ اللہ علیہا نے آپ کو فرعون جو کہ آپ کے قتل کے دَرپے تھا، اُس سے بچانے کے لئے دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا تھا۔
اگر شریعت کا کوئی حکم مشکِل محسوس ہو تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے کہ کس طرح حکمِ الٰہی کی اطاعت میں اپنے چہیتے بیٹے کو ذَبح کرنے پر تیّار ہوگئے تھے۔
اگر کوئی مَصائب و آلام میں مبتَلاہو تو حضرتِ سیِّدُنا ایُّوب علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی بیماری اور اس پر آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کے عظیم صَبْر کو یاد کرے۔
اگر کسی کو مَنصب و حکومت ملے تو حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی سیرتِ مبارَکہ پر چلے کہ اتنی بڑی سلطنت ہونے کے باوُجُود لمحہ بھر کیلئے بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہوئے اور حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلے کہ جنہوں نے حُکومت ملنے کے بعد اپنی بیوی کا قیمتی ہار بھی مسلمانوں کی خیرخواہی کی ترغیب دِلا کربیتُ المال میں جمع کروا دیا تھا۔

اگر کسی کا لاڈلا بیٹا کھو جائے تو وہ حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے کہ کس طرح آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام نے حضرتِ سیِّدُنا یوسُف علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کے بِچھڑنے پر صَبْر کیا تھا۔
اگر کوئی عورت دعوتِ گناہ دے تو حضرتِ سیِّدُنا یوسُف علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے جنہوں نے قید میں جانا تو گوارا کرلیا مگر اپنے دامن پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔
اگر کسی کو دِین کی خاطِر اپنا عَلاقہ چھوڑنا پڑے تو وہ اپنے آبائی شہر مکّۂ مکرَّمہ کو چھوڑ کرمدینۂ منوَّرہ کو ہِجرت کرنے والے عظیم مسافریعنی آقا مکّی مَدَنی مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یاد کرے۔
اگر تبلیغِ اسلام کی راہ میں کوئی زَخم لگے تو حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کو یاد کرے جنہوں نے کعبۂ مُشرَّفہ کے قریب کھڑے ہوکر بیان کرنے کے نتیجے میں کفّارِ جَفاکار کی ظالمانہ مار سہی تھی۔
اگر کبھی عَدْل و انصاف کرنے کا موقع ملےاور قدم ڈگمگائیں تو حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے انصاف کو یاد کرے جس کی گواہی غیر مسلم بھی دیتے ہیں۔
اگر راہِ خدا میں خَرچ کرنے کا موقع ملے اور نفس و شیطان حیلے بہانےسجھائے تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سَخاوت کو ذِہن میں لائے کہ اُنہوں نے کبھی راہِ خدا میں خَرْچ کرنے سے دَرَیغ نہیں کیا۔
دشمنانِ اسلام سے مقابلہ ہو تو حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی شُجاعَت کو یاد کرکے اپنا حوصلہ بڑھائے۔
راہِ علم میں سفر درپیش ہو تو حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ کے شوقِ علم کو سامنے رکھتے ہوئےآگے بڑھتا جائے۔
Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
مسلمانوں میں صُلح کروانے کا موقع ملے تو حضرتِ سیِّدُنا امامِ حَسَن مُجْتَبٰی رضی اللہ عنہ کی عظیم حکمتِ عملی کو پیش نظر رکھے ۔
راہ ِخدا میں جان دینے کا موقع آپڑے تو سیِّدُالشُّہَدَاء سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت کویاد کرے۔ اَلْغَرَض ہم زندگی کے ہر ہر مُعامَلے میں بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت پاسکتے ہیں۔

islamic events © 2019,

Thursday, October 17, 2019

parda poshi[پَردہ پوشی]

parda poshi[پَردہ پوشی]

پَردہ پوشی


انسان کی ذات اچھائیوں اور بُرائیوں کا مجموعہ ہے، اس کی بعض برائیاں و خامیاں دوسروں کو معلوم ہوتی ہیں اور کچھ چھپی رہتی ہیں۔ مگر چند لوگوں کی طبیعت مکھی کی طرح ہوتی ہے جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے، چنانچہ یہ لوگ دوسروں کی چھپی ہوئی برائیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان بُرائیوں اور عیبوں کو دوسروں پر کھولنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس قسم کے جملے ان کی زبان پر آتے رہتے ہیں: ارے تمہیں پتہ چلا! فلاں کی اپنی بیوی سے کل زبردست لڑائی ہوئی ،فلاں کو اس کے مالکِ مکان نے بہت ذلیل کیا ،فلاں بہت ڈرپوک ہے، کل گھر میں چوہا آگیا تو ڈر کے مارے گلی میں آگیا تھا،فلاں بہت لالچی ہے ،فلاں کا بچہ پڑھائی میں بہت کمزور ہے اسے روزانہ اسکول میں سزا ملتی ہے ،فلاں عورت کی اپنی ساس سے نہیں بنتی، کل ہی ان کی تُو تُو میں میں ہوئی ہے ،فلاں شخص فلاں کے گھر رشتہ مانگنے گیا تو انہوں نے ذلیل کر کے گھر سے نکال دیا وغیرہ۔ اس کام میں انہیں عجیب قسم کی شیطانی لذّت ملتی ہے۔ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ خود کتنے بُرے کام کرچکے ہیں۔
ایک بُرا کام تو یہ کہ دوسروں کے عیب جاننے کی جستجو کی اور اس سے قرآنِ پاک میں منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَجَسَّسُوْا (پ۲٦،حجرات:۱۲) ترجمۂ کنزالایمان:اور عیب نہ ڈھونڈو۔یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور اُن کے چُھپے حال کی تلاش میں نہ رہو، جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی سَتّاری سے چُھپایا۔
دوسرا یہ کہ اس کے عیبوں کو اچھالا اور لوگوں میں عام کیا، یہ بھی مذموم (یعنی بُرا) ہے،رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہوجائے گا(ترمذی)۔مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کسی کو بِلا وجہ بَدنام کرے گا قدرت اسے بَدنام کر دے گی۔

حکایت: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابُو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامِع مسجِد کُوفَہ کے وُضو خانے میں تشریف لے گئے تو ایک نوجوان کو وُضو کرتے ہوئے دیکھا،اُس سے وُضو میں اِسْتِعْمال شُدہ پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: بیٹا! ماں باپ کی نافرمانی سے توبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے توبہ کی۔ ایک اور شخص کے وُضو کے پانی کو مُلاحَظَہ فرمایا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس شخص سے ارشاد فرمایا: میرے بھائی! بدکاری سے تَوبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے تَوبہ کی۔ ایک اور شخص کے وُضو کے پانی کو دیکھا تو اُس سے فرمایا: شَراب پینے اور گانے باجے سُننے سے توبہ کر لے۔ اُس نے عرض کی: میں نے تَوبہ کی۔ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر غیبی باتوں کے اِظہار کے باعِث چُونکہ لوگوں کے عُیُوب ظاہِر ہوجاتے تھے لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے بارگاہِ خُداوَندی میں غیبی باتوں کے اِظہار کے ختم ہوجانے کی دُعا مانگی، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دُعا قَبول فرما لی جس سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو وُضو کرنے والوں کے گناہ جھڑتے نظر آنا بند ہوگئے۔
یہ تھا ہمارے بزرگانِ دین کا انداز کہ دوسروں کا عیب نہ دیکھنا پڑے، اس کے لیے دعا مانگی، اللہ تَعَالیٰ ہمیں بھی دوسروں کے عیب ڈھونڈنے، انہیں اچھالنے سے بچائے۔ اگر بغیر کوشش کے کسی کے عیب معلوم ہوبھی جائیں تو ”پَردہ پوشی“ کرنی چاہیے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جس نے کسی مسلمان کی ”پَردہ پوشی“ کی اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا و آخرت میں اس کی ”پَردہ پوشی“ فرمائے گا۔(مسلم) مراٰۃ المناجیح میں ہے: (یعنی) چُھپے ہوئے عیب ظاہر نہ کرے! بشرطیکہ اس ظاہر نہ کرنے سے دین یا قوم کا نقصان نہ ہو، ورنہ ضرور ظاہرکر دے! کفار کے جاسوسوں کو پکڑوائے! خفیہ سازشیں کرنے والوں کے راز کو ظاہر کرے! ظلماً قتل کی تدبیر کرنے کی مظلوم کو خبر دے دے! اخلاق اور ہیں، معاملات اور سیاسیات کچھ اور۔

islamic events © 2019,

Wednesday, October 16, 2019

Hazrat Data Ganj Bakhsh Ali Hajveri R.A[حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ]

Hazrat Data Ganj Bakhsh Ali Hajveri R.A[حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ]

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


حضرت سیِّدُنا داتا علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادتِ با سعادت کم و بیش ۴۰۰ ھ میں غزنی(مشرقی افغانستان) میں ہوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خاندان نے غرنی کے دومَحَلُّوں جُلَّاب و ہجویر میں رہائش اِختیار فرمائی اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہجویری جُلَّابی کہلاتے ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے:’’حضرت مَخْدوم علی بن سید عثمان بن سیّد عَبْدُالرَّحْمٰن بن سید عبداللہ(شجاع شاہ) بن سیّد ابوالحَسَن علی بن سیّد حَسَن بن سیِّد زَیْد بن حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بن علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد حضرت سَیِّدُنا عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے وقت کے جَیَّد عَالِم اورعابدو زاہد تھے ۔ شاہان ِ غَزنیہ کے زمانے میں دنیاکے کونے کونے سے عُلَماء و فُضَلَاء،شُعَرَاء اورصُوْفِیَاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی عُلُوم و فُنُون کا مرکز بن چکا تھا ،حضرت سیدنا عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی یہاں رہائش اختیا ر فرمائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ ماجدہ حُسَیْنی سادات سے تھیں، عابِدہ زاہِدہ خاتون تھیں ، گویا حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نَجِیبُ الطَرفَیْن سَیِّد تھے اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حَسَنی جمال اور حُسینی کمال دونوں ہی کے جامِع تھے۔

گنج بخش کہنے کی وجہ:منقول ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ روحانی فیض کے حصول کے لئے داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزارِ فائضُ الاَنْوَارپر ایک عرصہ تک مقیم رہے، وقتِ رخصت والہانہ انداز میں فرمایا:گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما یعنی:آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خزانے لُٹانے والے ،عالَم کو فیض پہنچانے والے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کےنور کے مظہر ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ناقصوں کے لئے پیرِ کامل اور کاملوں کے راہنما ہیں۔اس کے بعدخلقِ خدا آپ کو گنج بخش کے لقب سے پکارنے لگی۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے پیر و مُرشِد حضرت سیّدنا ابوالفضل بن حسن خُتَّلی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے حکم پر لاہور میں تبلیغِ اسلام کا سلسلہ شروع فرمایا،اُس زمانے میں غزنی سے لاہور تک کا راستہ کافی کٹھن تھا لیکن رضائے الٰہی کے حصول اور تبلیغِ اسلام کی خاطر آپ نے اِس مشقت کو بھی دل و جان سے قبول کیا اور انتہائی دُشوار گزار پہاڑ و دریا عبور کرتے ہوئے ۴۳۱ ھ کو لاہور تشریف لائے۔دین کی ترویج و اشاعت کے لئے سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہاں ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور علم و عرفان کا نور پھیلانے کے لئے دَرْس و تَدْرِیْس کا آغاز فرمایا،آپ دن رات قراٰن و حدیث کا درس دیتے، لوگوں کے روزمرہ پیش آنے والے مسائل کا حل ارشاد فرماتے، آپ کے حسنِ اخلاق، شرافت اور اخلاص سے متأثّر ہو کر غیر مسلم جوق دَر جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے۔اسی طرح آپ کی دعاؤں اور وعظ و نصیحت کی بدولت لاہور کا نائب حاکم رائے راجو بھی مسلمان ہوگیا۔

داتا صاحب نے تقریباً۹ کُتُب تصنیف فرمائیں جن میں کَشْفُ الْمَحْجُوب جیسی شاہکار کتاب بھی شامل ہے جو رہتی دنیا تک ہدایت و اِصلاح کے طلبگاروں کے لئے ایک بے مثال راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔
کئی سالوں پر مُحِیط داتا علی ہجویری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کی تبلیغِ اسلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ کُفرو شِرْک کے اندھیروں میں ڈُوبا ہوا شہر قَلْعۂ اِسلام بن گیا، ہزاروں بے عِلْم فیضانِ عِلْم سے سیراب ہو کر”عالِم“بنے، گمراہ راہِ راست پر آئے، ناسمجھ لوگوں نے عقل و دانش کی دولت پائی اور روحانیت میں ناقص لوگ کامل ہوگئے اور کامل لوگ اکمل(یعنی اور زیادہ کامل ) ہوگئے دُور دُور سے عُلما و مَشائخ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں آکر اپنے مَن کی مُراد پاتے۔
Hazrat Data Ganj Bakhsh Ali Hajveri R.A[حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ]
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک ۲۰صفرالمظفر ۴٦۵ ھ کوہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کامزارمنبعِ انواروتجلیات مرکزالاولیا لاہور(پاکستان)میں ہے،اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیااورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔داتا صاحب کا یہ فیضِ روحانی آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ

islamic events © 2019,

Saturday, October 12, 2019

bardasht[ برداشت]

bardasht[ برداشت]

برداشت


زندگی کا ایک پہلو ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ہے ، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم اپنی ناگواری کا اُس پر اظہار کردیں۔یادرکھئے! اس سے معاملات سُدھرتے نہیں بلکہ بگڑنے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے۔سامنے والے نے ایک بات کی، ہم سے صبر اور برداشت نہ ہوا تو ہم نے ایک کی دس سُنا دِیں تو بات بڑھ کر جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے،بعض تو ایسے نادان ہوتے ہیں کہ ان کا مزاج ماچس کی تِیلی کی طرح ہوتا ہے کہ ذرا سی رگڑ پر بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اگر ساس بہو، نگران وماتحت، شوہر بیوی وغیرہ ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کی عادت بنا لیں تو ناخوشگواری سے بچا جا سکتا ہے۔ کسی نے بے خیالی میں آپ کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا تو ’’اندھا ہے، دکھائی نہیں دیتا؟‘‘جیسے جملے بول کر غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے لئے صبر و برداشت کا مظاہرہ کر کے ثوابِِ آخرت کا حقدار بنا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمانِ عالیشان ہے( وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) )(پ۴،اٰلِ عمرٰن:۱۳۴) ترجمۂ کنزالایمان:اور غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزر کرنے والے اورنیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔
بیوی نے کھانا وقت پر تیارنہ کیا ، کپڑے ٹھیک سے اِستری نہ ہوئے تو بھی برداشت کرکے گھریلو زندگی کو تلخ ہونے سے بچائیے، کیونکہ جن گھروں میں برداشت کم ہوتی ہے، وہاں سے جھگڑوں کی آوازیں بلند ہوا کرتی ہیں۔

عفو و درگزر اوربرداشت سے کام لے کر دنیاوی اور اُخروی فوائد حاصل کرنا ہی دانشمندی ہے ، سلطانِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہوکہ اُسکے لیے (جنت میں)محل بنایا جائے اوراُسکے درجات بلند کیے جائیں، اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطع تعلق کرے یہ اُس سے ناطہ جوڑے(حدیث)۔
کہتے ہیں:ایک آدَمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا۔ اسے غُصّہ تو بَہُت آیا مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غُصّہ پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رَہتا ہوں۔اگر آج میں نے بیوی کی خطاپر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ کل بروزِقِیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے۔چُنانچِہ اُس نے دل ہی دل میں اپنی زَوجہ کی خطا مُعاف کردی۔ اِنتِقال کے بعد اس کوکسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ اُس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والاتھا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اُس کی خطا مُعاف کردی تھی ، جاؤ!میں بھی اُس کے صِلے میں تم کوآج مُعاف کرتا ہوں۔
اگر ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ ذہن بنالے کہ میں صبر وتحمل اور برداشت کی عادت بناؤں گا تو ہمارا گھر ،محلہ ،شہر اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔اِن شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

islamic events © 2019,

Friday, October 11, 2019

guftagu[ گفتگو ]

guftagu[ گفتگو ]

گفتگو


فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:اِمْلَاء ُالْخَیْرِ خَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَاءِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے(حدیث)۔
کس سے،کس وقت اور کس انداز میں کیا گُفْتگوکرنی ہے؟ یہ گُر سیکھنے سے آتا ہے۔ انسان جب بولتا ہے تو کبھی کسی کے دل میں اُتر جاتا ہے اور کبھی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دل سے اُترجاتا ہے ،لہٰذا ’’پہلے تولوبعد میں بولو‘‘ پر عمل کرنا چاہئے ۔
حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے گفتگو کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے :مکمّل نقصان دِہ بات(اس سے بچنا ضروری ہے) مکمَّل فائدے مند بات(اس میں احتیاط یہ کرنا ہوگی کہ زبان کھلنے کے بعد نقصان دینے والی باتوں میں مبتلا نہ ہوجائے)ایسی بات جو نقصان دِہ بھی ہو اور فائدے مند بھی(اس کے لئے نفع نقصان کی پہچان ہونا ضروری ہے)اورایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو نہ نقصان(اس میں وقت جیسی انمول دولت ضائع ہوتی ہے) ہمیں چاہئے کہ دنیا وآخرت کی کامیابیاں سمیٹنے کے لئے وہی گفتگو کریں جو مُفید ہو۔
ہم مختلف مَقامات پر مختلف لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں لہٰذا ہماری گفتگو بھی مختلف اور بہتر ہونی چاہئے۔ اپنی گفتگو کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کچھ باتوں کو اپنانا پڑے گا اور کچھ چیزوں سے بچنا ہو گا ۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے عزت سے بات کی جائے تو آپ کو بھی اپنی گفتگو میں دوسروں کو عزت دینی ہوگی ، اس کی مِثال یوں سمجھئے کہ ربڑ کی گیند کو جتنی قوَّت سے دیوار پر مارا جائے اُسی رفتار سے واپس آتی ہے ۔ بولنے کی رفتار بھی اپنا اثر رکھتی ہے اگر رفتار زیادہ تیز ہوگی تو دوسرےکو الفاظ کم سمجھ میں آئیں گے اور اگر رفتار بہت کم ہوگی تو آپ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کا انتظار کرتے کرتے دوسرا اُکتا جائے گا ،لہٰذا اَوْسَط رفتار سے بات کرنا مُناسِب ہے۔ بولنے میں بلا شُبَہ زیادہ محنت نہیں ہوتی صرف زبان ہلانی پڑتی ہے مگر زبانیں صِرف رَس نہیں اُنڈیلتیں زہر بھی اُگلتی ہیں،نَرْم گفتگوآپ کا وَقار بڑھا دے گی اور تَلْخ گُفتگو آپ کی قَدْر گھٹا دے گی۔
بہترین چائے اگر گندے کپ میں پیش کی جائے تو اس کی اَہَمِّیَّت گِر جاتی ہے،گفتگو اگر چائے ہے تو لہجہ اس کا کپ ہے، ہما را لہجہ سننے والے کے قَلْب و ذِہن پر ہمارے لفظوں سے زیادہ اَثَر ڈالتا ہے،لیکن لہجہ حقیقت کے قریب ہوبناوَٹی نہ ہو،کیونکہ بناوٹی لہجہ لوگوں کو سمجھا دیتا ہے کہ آپ وہ نہیں ہیں جو نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پُرسکون لہجے کا استعمال، سمجھنے اور سمجھانے میں مددگار ہوتا ہے،چنانچہ اچھی سے اچھی گفتگوبھی اگر خراب لہجے میں کی جائے تو سننے والے کو ناگَوار گزرے گی۔ دورانِ گفتگو اپنی آواز کے اُتار چڑھاؤ پر نظر رکھئے،لوگ جلدی آپ کی بات سمجھ جائیں گے، آواز کی بُلندی و پستی آپ کی بلندی وپستی کا سبب بن سکتی ہے۔ہوائی باتیں کرنے سے بچیں، اس سے شروع شروع میں آپ کو لوگوں کی توجہ تو مل جائے گی لیکن بعد میں آپ کی باتیں قابلِ بھروسا نہیں رہیں گی،جوبھی دعویٰ کریں اُس کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل یاحوالہ ہونا چاہئے۔الفاظ کا مناسب اِستِعمال آپ کی گفتگو میں جان ڈال دیتا ہے۔

چنانچہ’’کھالو‘‘کی جگہ’’کھالیجئے‘‘،’’میرا فیصلہ یہ ہے‘‘ کی جگہ ’’میری رائے یہ ہے‘‘،’’میں یہ کہہ رہا تھا‘‘کی جگہ ’’میں یہ عرض کررہا تھا‘‘، ”مجھے تم سے کام ہے“ کی جگہ ”مجھے آپ سے کچھ کام ہے“ یا” آپ کو تھوڑی زَحْمت دینی ہے“،’’اندھے‘‘کی جگہ”نابینا“،’’بوڑھے‘‘کی جگہ ’’بُزُرگ‘‘ ،’’فلاں مرگیا‘‘ کی جگہ ’’فلاں کا اِنتِقال ہوگیا‘‘، ’’کیوں آئے ہو؟‘‘کی جگہ’’کیسے تشریف لائے؟‘‘ ، ’’مصیبت میں پڑگیا“ کی جگہ ’’آزمائش میں آگیا‘‘،’’آپ غلط کہہ رہے ہیں ‘‘ کی جگہ ’’میری ناقص رائے یہ ہے کہ یہ بات اس طرح ہے ‘‘،’’آپ میری بات نہیں سمجھے ‘‘کی جگہ ’’شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پایا‘‘وغیرہ استعمال کیجئے اور اس کے فوائد اپنی آنکھوں سے دیکھئے ۔مخاطب کا نام لے کر اس سے بات کرنا،اَجنبیت کو کم کرتا اور گفتگو میں سامنے والے کی دلچسپی بڑھا دیتا ہے زبان سامنے والے کے منہ میں بھی ہے ،یہ پیشِ نظر رکھئے اور اس کی بھی سنئے کیونکہ گفتگو اسی کا نام ہے کہ کبھی ایک بولے اور دوسرا سنے تو کبھی دوسرابولے اور پہلا سنے ۔اگر آپ اپنی ہی سناتے چلے جائیں گے تو وہ دوبارہ آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل سکتا ہے ۔
اندازِ گفتگو کسی حد تک انسان کی چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کو ظاہر کردیتا ہے،اس لئے اِن چیزوں سے بچئے:گھبراہٹ میں بندہ اپنی بات بہتر طریقے سے نہیں سمجھا سکتا ،پہلے خود کو پرسکون کیجئے پھر گفتگو کا آغاز کیجئے۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ‘‘ ’’دیکھا نہ‘‘ ’’آپ میری بات لکھ لو ‘‘وغیرہ تَکِیہ کلام کی کثرت سامنے والے کی بَورِیَت کا سبب بن سکتی ہے، اس سے پرہیز کیجئے۔ زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ پاؤں کا استعمال بھی بعضوں کی عادت ہوتی ہے ، کبھی اس کے کندھے پر ہاتھ رَسِید کریں گے تو کبھی ہاتھ بڑھا کر فرمائش کریں گے:’’دے تالی‘‘یہ باوقار لوگوں کا انداز نہیں ہے،اس سے بچئے ۔’’میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا‘‘،’’میں اُس کو کھری کھری سناؤں گا‘‘ایسا کرنے والے کو سامنےسے بھی کھری کھری سننے کو ملتی ہیں ،آپ یہ انداز اختیار نہ کیجئے ، گولی کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے بعض اوقات اس پر شوگر کوٹنگ کی جاتی ہے ، لہذا بات کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے نرم الفاظ کا انتخاب اچھی حکمتِ عملی ہے ، آپ بھی اسی کو اِختِیار کیجئے ۔بعض لوگ اتنی دھیمی آوازمیں گفتگو کرتے ہیں کہ خود بولتے ہیں خود ہی سمجھتے ہیں ، اگر بات کسی دوسرے سے کرنی ہے تو اتنی آواز سے بولئے کہ اس کے کانوں تک پہنچ جائے ۔اُوٹ پٹانگ باتیں کرکے ہر محفل کی رونق بننے کی خواہش نہ پالئے کہ ایسا کرنے والے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اللہ کرے ہمیں صحیح بولنا آجائے ۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

islamic events © 2019,

Thursday, October 3, 2019

Hazrat Bahauddin Zakariya Multani R.A[حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat  Bahauddin Zakariya Multani R.A[حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگانِ خدا ہیں جنہیں صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے طبقےمیں شمار کیا جاتا ہے۔ ان ہی عظیم ہستیوں میں سے ایک بلند پایہ روحانی شخصیت شیخُ الشُّیوخ،غوثِ زمانہ شیخُ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی بھی ہے، حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ صحابیِ رسول حضرت سیّدنا ہَبّار بن اَسْوَد ہاشمی قرشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں۔
حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بروز جمعہ کوٹ کروڑ (ضلع مظفر گڑھ، پنجاب پاکستان) میں ۲۷ رمضانُ المبارک ۵٦٦ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے علومِ ظاہری و باطنی کےحصول کے لئے خراسان، بخارا اور حجازِ مقدسہ وغیرہ کا سفر فرمایا۔ جب بغداد پہنچے تو وہاں شیخ المشائخ حضرت سیّدنا شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر بیعت کا شرف حاصل کیا۔
مرشدِکامل نے مریدِ کامل کو اپنی صحبت سے نوازا اور صر ف ۱۷دن بعد خلافت عطا فرما دی، دیگر مریدین کے لئے یہ بات تعجب انگیز تھی کہ شیخ اتنی جلدی کسی کو خلافت عطا نہیں فرماتے تو بہاؤالدین زکریا پر یہ لطفِ خاص کیوں؟ مرشدِ کریم نے فراستِ مؤمنانہ سے مریدوں کی یہ بات جان لی اور فرمایا: تم سب گیلی لکڑی کی طرح ہو، جس پر عشقِ الٰہی کی آگ جلدی اَثَر نہیں کرتی، گیلی لکڑی کو جلانے کے لئے شدید محنت چاہئے، جبکہ بہاؤالدین زکریا سوکھی لکڑی کی طرح تھا کہ ایک ہی پھونک سے محبتِ الٰہی سے بھڑک اٹھا اسی لئے اسے میں نے اتنی جلدی خلافت دےدی۔ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ ہوکر جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ملتان تشریف لائے تو یہاں پرآپ نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع فرمایا، فرد اور معاشرے کی اِصلاح کے لئے مثالی خدمات سَر اَنجام دیں۔

فرد کی اِصلاح کے لئے خانقاہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں لوگ آکر ٹھہرتے اور حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی صحبتِ بابرکت سے فیض یاب ہوتے، اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے، اس خانقاہ میں ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا۔معاشرے کی اِصلاح کے لئے حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک مُنَظَّم ادارہ قائم فرمایا، جسے آج کی اِصطلاح میں جامعہ کہا جاتا ہے، اس میں تدریس کے لئےمناسب تنخواہ و رہائش کی سہولیات دے کر مختلف زبانوں کے ماہرین عُلَما و فُضلاکو مقرر فرمایا۔ یہ ایک اِقامتی (رہائشی) ادارہ تھا، دور دراز سے طلبہ آکر یہاں ٹھہرتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے، ان کے لئے طعام کا اہتمام بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرف سے ہوتا۔ طالبانِ علومِ نبویہ کو اس وقت کے مُرَوَّجہ مختلف علوم و فنون سکھائے جاتے۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے برِّعظیم کےساتھ عراق، شام اور سر زمینِ حجاز سے بھی آکر طلبہ داخلہ لیتے۔ اس ادارے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی تھی، طلبہ کو علم و عمل کا پیکر بنایا جاتا، تاکہ وہ اپنے وطن واپس جاکر اسلام کی تَروِیج و اشاعت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔
تبلیغِ دین کے لئے ایک انقلابی سرگرمی اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے مبلغین کی تربیت کا ایک باقاعدہ شعبہ تھا جہاں مختلف علاقوں کی زبانیں اُنہیں سکھائی جاتیں، جس مبلغ کو جہاں بھیجنا ہوتا اسے وہاں کے رہن سہن اور تہذیب و ثقافت سےآگاہی دی جاتی پھر اسے وہاں بھیجا جاتا تاکہ وہاں جاکر اسلام کا پیغام بہترین اندازمیں عام کر سکے، سال میں ایک مرتبہ یہ تمام مبلغین جمع ہوتے اور اپنی سال بھر کی کاوشوں کی کارکردگی پیش کرتے۔ معاشی طور پر خودکفیل کرنے کے لئے ان مبلغین کو سامان ِ تجارت دے کر روانہ کیا جاتا، ان کی ایسی تربیت کی جاتی کہ خریدار ان کے حسنِ کردار اور حسنِ معاشرت سے متأثر ہوکر دامنِ اسلام سے وابستہ ہوجاتا، ان مبلغین نےجن علاقوں میں اسلام کی روشنی کو پہنچایا ان میں سرِفہرست افغانستان، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین کا ذکر ہے۔

Hazrat  Bahauddin Zakariya Multani R.A[حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ۷ صفر المظفر ٦٦۱ھ کو حسبِ معمول اپنے وظائف میں مشغول تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاحبزادے شیخ صدرُ الدّین عارف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک نورانی شخص کو دیکھا، اُنہوں نے ایک رُقْعَہ آپ کے والد ماجد کو دینے کے لئے کہا، صاحبزادے حجرہ میں داخل ہوئے اور رُقْعَہ پیش کرکے باہر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی: وَصَلَ الْحَبِیْبُ اِلَی الْحَبِیْبِ یعنی دوست دوست سے مل گیا۔ صاحبزادے جلدی سے اندر گئے تو دیکھا کہ والدِ محترم وصال فرما چکے ہیں۔ ملتان شریف پنجاب پاکستان میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔اٰمِیْن

islamic events © 2019,

Wednesday, October 2, 2019

Hazrat Baba Bulleh Shah R.A[حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Hazrat Baba Bulleh Shah R.A[حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


حضرت بابا بلھے شاہ سیّد محمد عبد اللہ گیلانی قادری شَطّاری حنفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۱۰۹۱ھ میں مقام اُوچ شریف (ضلع بہاولپور،پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا اصل نام سیِّد عبداللہ ہے جبکہ بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نام سے عالمگیر شہرت پائی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قادری شطاری بزرگ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب چودہ واسطوں سے حضرت سیِّدنا شیخ سیّد ابو محمد عبد القادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جا ملتاہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے آباواجداد میں سے ایک بلند پایہ بزرگ غوثِ وقت حضرت سیّد محمد غوث بندگی گیلانی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۸۸۷ھ میں حَلب (ملک شام ) سے ہجرت کرکے اُوچ شریف میں آباد ہوئے ۔
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شکل و صورت کے اعتبار سے خوبرو اور خوش شکل تھے،سنّت کے مطابق سر ِاقدس پر زلفیں ہوا کرتی تھیں ، آنکھىں گول اور موٹى تھىں جو دیکھنے والوں کو بَھلی معلوم ہوتی جبکہ چہرے کے نقوش تىکھے (خوب صورت) تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شرىعت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی سجا رکھی تھی جو بہت گھنی تھی جس کى بدولت چہرہ پر اىک رعب و دبدبہ نظر آتا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنتے اور ساتھ تہبند باندھا کرتے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سارى زندگى شادى نہ کى اورپوری زندگی تنہاگزاردی ۔

حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا کلام معرفت اور عشقِ حقىقى سے بھرپور ہے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی تمام روحانی منازل کے حصول کا ذریعہ اور پہلا سبب شریعت ِمحمدی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہی قرار دیا اور اس پر عمل کو لازمی جانا۔
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جہاں اپنے کلام کےذریعے سرد دلوں میں عشق ومحبت کی گرمی پیدا کی تووہیں اپنے ملفوظات کو مدنی پھولوں میں ڈھال کر کوچۂ دل کو مہکا دیا چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں : جو علم بے عمل ہے وہ دل کى کھوٹ کو کھرا نہىں کرسکتا۔اس علم کا کوئى فائدہ نہىں جس سے ذلت و خوارى حاصل ہو۔ظاہری جمع خرچ محض تکبر کی نشانی ہے جب تک عملاً کچھ نہ کیا جائےمراد کا پھل حاصل نہیں ہوسکتا۔محبوب ِحقىقى توانسان کے اپنےدل مىں ہوتا ہے،مگر اندھے کو اس کى پہچان کىسے ہوسکتى ہے۔جب تک دل سے تکبر، حرص ،کىنہ، بغض نکال کر جلا نہ دىا جائے محبوب ِحقىقى نہىں مل سکتا۔جس نے خود کو دنىا کى آلائشوں سے پاک کیا اس نے کسبِ فقر پالىا۔آخرت کا توشہ کمانا چاہتے ہو تو محبوبِ حقىقى کى محبت اپناؤ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ہمىشہ ہر شے سے زىادہ ىاد کرو۔پیر ومرشد ہی ہمیشہ طرزِ فکر کابیج بَوتا ہے۔

Hazrat Baba Bulleh Shah R.A[حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاوصال ٦ صفر المظفر ۱۱۸۱ھ میں ہوا۔ قصور شہر میں ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزارِ اقدس ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا عرس مبارک ہرسال اگست کی ۲۵۔۲٦ ۱ور ۲۷تاریخ کو منعقد ہوتا ہے جہاں ملک کے کونے کونے سے عقیدت مند اپنی عقیدت کے پھول چڑھانے جوق در جوق آتے ہیں۔

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...