Sunday, September 13, 2020

Hazrat Imam Mahdi R.A[حضرت سیّدُنا امام مہدی رضی اللہ عنہ]

Hazrat Imam Mahdi R.A[حضرت سیّدُنا امام مہدی رضی اللہ عنہ]

حضرت سیّدُنا امام مہدی رضی اللہ عنہ


قِیامت سے پہلے ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ دُنیا میں کُفر پھیل جائے گا، زمین ظُلْم اور سَرکَشی سے بھرجائے گی، اسلام حَرَمَین شریفَین کی طرف سمٹ جائے گا، اولیا و اَبْدال وہاں ہجرت کرجائیں گے۔پھرسیِّدَتُنا فاطمۃُالزَّہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ایک شخص پیدا ہوگا جو زمین کو عَدْل و انصاف سے بھر دے گا۔ یہی تمام روئے زمین پر حکومت کرنے والے پانچویں بادشاہ ہوں گے جنہیں حضرت امام مہدی کہا جاتا ہے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دنیا ختم نہ ہوگی حتّٰی کہ عَرَب کا بادشاہ ایک شخص بنے گا۔ جو مجھ سے یا میرے گھر والوں سے ہے اس کا نام میرے نام کے موافق اور اس کے باپ کا نام میرے والد کے نام کے موافق ہوگا وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا جیسے وہ ظلم و زیادتیوں سے بھری تھی۔

حضرت سیّدُنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کا نام محمد اور آپ کے والد کا نام عبدُاللہ ہوگا جیساکہ حدیثِ پاک میں اشارہ ہے۔ اس حدیثِ پاک سے یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہوئی کہ حضرت امام مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے بلکہ پیدا ہوں گے نیزامام مہدی والد کی طرف سے حَسَنی سیّد ہوں گے، والدہ کی طرف سے حُسَینی، آپ کے اُصول (یعنی ماں، دادی، نانی وغیرہ اُوپر تک) میں کوئی والدہ حضرت عباس کی اولاد سے ہوں گی لہٰذا آپ حسنی بھی ہوں گے حسینی بھی اور عباسی بھی۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ اخلاق، آداب اور عادات میں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرح ہوں گے مگر شکل وصورت میں پورے مشابہ نہ ہوں گے اگرچہ بعض باتوں میں نبیِّ پاک کے ہم شکل ہوں گے( جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مہدی مجھ سے ہیں، چوڑی پیشانی والے، اُونچی ناک والے،سات سال سلطنت فرمائیں گے۔)(اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جیتی جاگتی تصویر (ہوں گے) کہ چوڑی پیشانی اور اونچی ناک شریف یہ دونوں صفتیں حُضُورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہیں۔
امام مہدی کا ظُہُور: ماہِ رَمَضان میں اَبْدال کعبہ شریف کے طواف میں مشغول ہوں گے وہاں اولیاء حضرت مہدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پہچان کر ان سے بیعت کی درخواست کریں گے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ انکار فرمائیں گے۔ غیب سے نِدا (آواز) آئے گی ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللہِ الْمَھْدِیْ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْہ یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کا حکم سنو اور اطاعت کرو۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے وہاں سے مسلمانوں کو ساتھ لے کر شام تشریف لے جائيں گے۔آپ کا زمانہ بڑی خیر و برکت کا ہوگا۔ زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (امام) مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے سر پر عِمامہ ہوگا۔ ایک مُنادی یہ آواز بلند کرتے ہوئے آئے گا کہ یہ مہدی ہیں جو اللہ کے خلیفہ ہیں،لہٰذا تم ان کی اِتِّباع و پیروی کرو۔

ظُہورِ امام مہدی کے بارے میں ایک روایت شرح کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے: ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہوگا (اس کا نام معلوم نہیں مگر یہ آخری خلیفہ ہوگا جس کے بعد امام مہدی خلیفہ ہوں گے ممبروں میں اختلاف ہوگا کہ کسے خلیفہ چُنیں) تو اہلِ مدینہ میں سے ایک صاحب مکہ معظمہ کی طرف تیزی سے تشریف لے جائیں گے (اس خوف سے کہ کہیں اُنہیں خلیفہ نہ چُن لیا جائے) اہلِ مکہ میں سے کچھ لوگ ان کے پاس آئیں گے (وہ لوگوں سے چھپے ہوئے مکۂ مکرمہ کے کسی گھر میں تشریف فرما ہوں گے مگر مکہ والے ان کے دروازے پر پہنچ کر ان سے گزارش کریں گے اور) انہیں باہر لائیں گے (اور انہیں اپنا خلیفہ مان کران کے ہاتھ مبارک پر بیعت کریں گے) حالانکہ وہ صاحب اسے ناپسند کرتے ہوں گے یہ لوگ اُن سے مقامِ ابراہیم اور حجرِ اَسْوَد کے درمیان بیعت کریں گے (اس وقت شام کا بادشاہ کافر ہوگا، جب اسے ان کی خلافت کا پتا لگے گا تو وہ ان سے جنگ کرنے کے لئے) ان کی طرف شام سے ایک لشکر بھیجے گا (جس کا نام لشکرِ سفیانی ہوگا)۔ اُس لشکر کو مکہ و مدینہ کے درمیان ایک میدان میں دھنسا دیا جائے گا (اس لشکر میں صرف ایک شخص بچے گا جو ان کی ہلاکت کی خبر لوگوں تک پہنچائے گا) جب حضرت امام مہدی کی یہ کرامت لوگوں میں مشہور ہوگی تو ان کے پاس شام کے اَبْدال اورعراق والوں کی جماعتیں آئیں گی تو اُن کو بیعت کرلیں گے پھر قریش کا ایک شخص نکلے گا جس کے ماموں بنو کَلْب سے ہوں گے (یہ خبیث انسان اپنے ماموؤں کی مدد سے) حضرت امام مہدی کے مقابلہ میں ایک لشکر بھیجے گا امام مہدی کا لشکراُن پر غالب آئے گا۔ دوسری روایت میں ہے:نقصان میں ہوگا وہ شخص جو بنی کَلْب سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں شریک نہ ہو۔ خلیفہ مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں کو ان کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت پر چلائیں گے اور اسلام مکمل طور پر زمین میں مستحکم ہوجائے گا۔

کتنے سال حکومت فرمائیں گے؟حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سات یا نو سال تک حکومت فرمائیں گے جیسا کہ حضرت سیّدُنا ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں ہے:يَمْلِكُ سَبْعًا اَوْ تِسْعًایعنی وہ سات یا نو سال تک حکومت فرمائیں گے۔
islamic events © 2020,

Monday, June 22, 2020

Zul Qadah[ذوالقعدہ]

Zul Qadah[ذوالقعدہ]

ماہ ذوالقعدہ


اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔ یہ پہلا مہینہ ہے جس میں جنگ و قتال حرام ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔ اور اس مہینہ میں بھی عرب لوگ جنگ و قتال سے بیٹھ جاتے تھے۔ یعنی جنگ سے باز رہتے تھے۔ اس لیے اس کا نام ذُوالقعدہ رکھا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آیا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔ سال؛ بارہ مہینوں کاہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے ادب واحترام والے ہیں۔جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں؛ ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم الحرام۔ ایک مہینہ مضر کا رجب ہے، جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔

ذوالقعدہ کے خصائص میں سے ایک بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا ہوئے ، سوائے اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے ملا ہوا تھا پھر بھی آپ نے اس عمرے کا احرام ذوالقعدہ ہی میں باندھا تھا لیکن اس عمرے کی ادائیگی آپ نے ماہِ ذوالحجہ میں اپنے حج کے ساتھ کی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں سب سے پہلا عمرہ عمرۂ حدیبیہ کہلاتا ہے جو پورا نہ ہوسکاتھا بلکہ آپ حدیبیہ کے مقام پر حلال ہوکر واپس تشریف لے آئے تھے۔ پھر اس عمرے کی قضاء اگلے سال فرمائی تھی (یہ آپ کا دوسرا عمرہ کہلایا) تیسرا عمرہ ، عمرۂ جعرانہ کہلایا جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ادا فرمایا۔ جس وقت حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ شوال کے آخر میں ہوا تھا۔ لیکن مشہور قول یہی ہے کہ یہ ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ چوتھا اور آخری عمرہ حجۃ الوداع میں ہوا تھا جیسا کہ اس بارے میں نصوصِ صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور جمہور علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
ذو القعدہ کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جن تیس دن اور دس دنوں کا وعدہ فرمایا تھا،وہ تیس دن یہی ماہِ ذوالقعدہ اور دس دن ماہِ ذی الحجہ کے ہیں۔اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیّدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیّدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔

ماہ ذوالقعدہ کے روزے و نوافل


حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس مہینہ کے اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایاکہ اس مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔

جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار کعات نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ۳۳ دفعہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ، جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دو ۲ رکعات نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار۴ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اکیس۲۱ بار(سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو کوئی جمعرات کے دن اس مہینہ میں سو ۱۰۰ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد دس ۱۰مرتبہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔
islamic events © 2020,

Saturday, June 6, 2020

Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]

Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]

سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ


رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی ولادت راجح قول کے مطابق نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و جمیل تھے، شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔
ایک مرتبہ حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔

گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔
پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔ایک مرتبہ حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، سیّد الشُّہَداء نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔

سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ۱۵ شوّالُ المکرم ۳ہجری غزوۂ اُحد میں نہایت بے جگری سے لڑے اور ۳۱کفار کو جہنّم واصِل کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔دشمنوں نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ناک اور کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم

یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!شہدائے احدمیں سب سے پہلے سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد ہیں اور کوئی آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا شریک نہیں ہے۔
Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]
جبلِ اُحد کے دامَن میں سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔
islamic events © 2020,

Friday, June 5, 2020

Ghazwa E Uhad[غزوۂ اُحُد]

Ghazwa E Uhad[غزوۂ اُحُد]

غزوۂ اُحُد


غزوۂ بدر میں شکست کھانے کے بعدکفارِ مکہ انتقام کی آگ میں جَل رہے تھے چنانچہ اگلے ہی سال ۳ ہجری ماہِ شوال المکرم میں انتقام کا یہ لاوا اُبل پڑا جس کے نتیجے میں غزوۂ اُحُد پیش آیا۔ اس جنگ میں کفارِ مکہ بڑے جوش وجذبے سے آئے تھے، آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا، زبانوں پر انتقام! انتقام! کے نعرے تھے۔
غزوۂ اُحُد میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔منافقوں کا سردار عبْدُاللہ بن ابی بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن”شَوْط“ نامی مقام پر اپنے ۳۰۰ ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا،یوں اسلامی لشکر کی تعداد ۷۰۰ ہوگئی۔

غزوۂ اُحُد میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔منافقوں کا سردار عبْدُاللہ بن ابی بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن”شَوْط“ نامی مقام پر اپنے ۳۰۰ ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا،یوں اسلامی لشکر کی تعداد ۷۰۰ ہوگئی۔
اس جنگ کے دوران امام الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رُخِ انور زخمی ہوگیا اور سامنے والے ایک دانت مبارک کا تھوڑا سا کنارہ بھی شہید ہوا۔


صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرضوان کی حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کسی دلیل کی محتاج نہیں، جب جانِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زخمی ہوکر زمین پر جلوہ فرما ہوئے تو ہر طرف بے چینی پھیل گئی، صحابۂ کرام کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدار نہیں ہو رہا تھا! اسی دوران شیطان نے افواہ اُڑادی کہ (مَعَاذَاللہ) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم شہید ہوگئے ہیں، اس آواز سے مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے۔
پھر جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہوئے اور سب کو معلوم ہوا کہ شہادت کی خبر جھوٹی تھی تو کفار نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر تیروں کی بوچھاڑ کردی، حضرت ابو دُجَانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے آگے ڈھال بن گئے، حضرت زیاد بن سَکَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ چند انصاریوں کو لے کر بڑھے، اپنی جانیں قربان کردیں لیکن کسی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قریب نہ آنے دیا۔
الغرض! غزوۂ احد میں صحابۂ کرام نے جانثاری کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج بھی اوراقِ تاریخ پر جگمگا رہی ہیں۔
islamic events © 2020,

Friday, April 10, 2020

Hazrat Essa A S Ke Char Mojzat[حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار معجزات]

Hazrat Essa A S Ke Char Mojzat[حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار معجزات]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار معجزات


حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے یہ تقریر فرمائی۔ جو قرآن مجید کی سورہ آلِ عمران میں ہے:۔
وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدْ جِئْتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اور رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے، اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو، اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے، اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بے شک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (پ۳،آل عمران:۴۹)۔


اس تقریر میں آپ نے اپنے چار معجزات کا اعلان فرمایا:۔۔(۱)مٹی کے پرند بنا کر ان میں پھونک مار کر ان کو اڑا دینا۔۔۲)مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا۔۔(۳)مردوں کو زندہ کرنا۔۔(۴)اور جو کچھ کھایا اور جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھا اس کی خبر دینا۔
اب ان معجزات کی کچھ تفصیل بھی پڑھ لیجئے:۔
مٹی کے پرند بنا کر اُڑا دینا:۔ جب بنی اسرائیل نے یہ معجزہ طلب کیا کہ مٹی کا پرند بنا کر اڑا دیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مٹی کے چمگادڑ بنا کر ان کو اڑا دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پرندوں میں سے چمگادڑ کو اس لئے منتخب فرمایا کہ پرندوں میں سب سے بڑھ کر مکمل اور عجیب و غریب یہی پرندہ ہے کیونکہ اس کے آدمی کی طرح دانت بھی ہوتے ہیں اور یہ آدمی کی طرح ہنستا بھی ہے اور یہ بغیر پر کے اپنے بازوؤں سے اڑتا ہے اور یہ پرندہ جانوروں کی طرح بچہ جنتا ہے اور اس کو حیض بھی آتا ہے۔روایت ہے کہ جب تک بنی اسرائیل دیکھتے رہتے یہ چمگادڑ اڑتے رہتے اور اگر ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تو گر کر مرجاتے تھے۔ ایسا اس لئے ہوتا تھا تاکہ خدا کے پیدا کئے ہوئے اور بندئہ خدا کے پیدا کئے پرند میں فرق اور امتیاز باقی رہے۔ (روح البیان،ج۲،ص۳۷،پ۳، آل عمران:۴۹)۔
مادر زاد اندھوں کو شفا دینا:۔ روایت ہے کہ ایک دن میں پچاس اندھوں اور کوڑھیوں کو آپ کی دعا سے اس شرط پر شفاء حاصل ہوئی کہ وہ ایمان لائیں گے۔ (تفسیر جمل،ج۱،ص۴۱۹،پ۳،آل عمران ۴۹)۔


مردوں کو زندہ کرنا:۔روایت ہے کہ آپ نے چار مردوں کو زندہ فرمایا:۔(۱)عاذر اپنے دوست کو۔ (۲)ایک بڑھیا کے لڑکے کو۔(۳)ایک عُشر وصول کرنے والے کی لڑکی کو۔ (۴)حضرت سام بن نوح علیہ السلام کو
عاذر:۔یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک مخلص دوست تھے جب ان کا انتقال ہونے لگا تو ان کی بہن نے آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کا دوست مررہا ہے۔ اس وقت آپ اپنے دوست سے تین دن کی دوری کی مسافت پر تھے۔ عاذر کے انتقال و دفن کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے اور عاذر کی قبر کے پاس تشریف لے گئے اور عاذر کو پکارا تو وہ زندہ ہو کر اپنی قبر سے باہر نکل آئے اور برسوں زندہ رہے اور صاحب ِ اولاد بھی ہوئے۔
بڑھیا کا بیٹا:۔یہ مرگیا تھا اور لوگ اس کا جنازہ اٹھا کر اس کو دفن کرنے کے لئے جا رہے تھے۔ ناگہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ آپ کی دعا سے زندہ ہو کر جنازہ سے اٹھ بیٹھا اور کپڑا پہن کر اپنے جنازہ کی چارپائی اٹھائے ہوئے اپنے گھر آیا اور مدتوں زندہ رہا اور اس کی اولاد بھی ہوئی۔
عاشر کی بیٹی:۔ایک چنگی وصول کرنے والے کی لڑکی مرگئی تھی۔ اس کی موت کے ایک دن بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہو گئی اور بہت دنوں تک زندہ رہی اور اس کے کئی بچے بھی ہوئے۔


حضرت سام بن نوح:۔ اوپر کے تینوں مردوں کو آپ نے زندہ فرمایا تو بنی اسرائیل کے شریروں نے کہا کہ یہ تینوں درحقیقت مرے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان تینوں پر سکتہ طاری تھا اس لئے وہ ہوش میں آگئے لہٰذا آپ کسی پرانے مردہ کو زندہ کر کے ہمیں دکھایئے تو آپ نے فرمایا کہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کو وفات پائے ہوئے چار ہزار برس کا زمانہ گزر گیا۔ تم لوگ مجھے ان کی قبر پر لے چلو میں ان کو خدا کے حکم سے زندہ کردیتا ہوں تو آپ نے ان کی قبر کے پاس جا کر اسم اعظم پڑھا تو فوراً ہی حضرت سام بن نوح علیہ السلام قبر سے زندہ ہو کر نکل آئے اور گھبرائے ہوئے پوچھا کہ قیامت قائم ہو گئی؟ پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے پھر تھوڑی دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
جو کھایا اور چھپایا اس کو بتا دیا:۔حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مکتب میں بنی اسرائیل کے بچوں کو ان کے ماں باپ جو کچھ کھاتے اور جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھتے وہ سب بتا دیا کرتے تھے۔ جب والدین نے بچوں سے دریافت کیا کہ تمہیں ان باتوں کی کیسے خبر ہوتی ہے؟ تو بچوں نے بتا دیا کہ ہم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مکتب میں بتا دیتے ہیں۔ یہ سن کر ماں باپ نے بچوں کو مکتب جانے سے روک دیا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جادوگر ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچوں کی تلاش میں بستی کے اندر داخل ہوئے تو بنی اسرائیل نے اپنے بچوں کو ایک مکان کے اندر چھپا دیا کہ بچے یہاں نہیں ہیں آپ نے پوچھا کہ گھر میں کون ہیں؟ تو شریروں نے کہہ دیا کہ گھر میں سوّر بند ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا سوّر ہی ہوں گے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کے بعد مکان کا دروازہ کھولا تو مکان میں سے سوّر ہی نکلے۔ اس بات کا بنی اسرائیل میں چرچا ہو گیا اور بنی اسرائیل نے غیض و غضب میں بھر کر آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر مصر کو ہجرت کر گئیں۔ اس طرح آپ شریروں کے شر سے محفوظ رہے۔(تفسیر جمل علی الجلالین،ص۴۱۹،پ۳، آل عمران ۴۹)۔
حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفٰی اعظمی ؒ ۔۔۔۔



islamic events © 2020,

Wednesday, April 1, 2020

April Fool[اپریل فُول]

April Fool[اپریل فُول]

اپریل فُول


مُعَاشَرے میں پائی جانے والی برائیوں میں ایک ناسُور ”اپریل فُول “ بھی ہے جسے یکم اپریل کو رسم کے طور پر منایا جاتا ہے، نادان لوگ اس دن پریشان کردینے والی جھوٹی خبر سُنا کر، مختلف انداز سے دھوکا دے کر اپنے ہی اسلامی بھائیوں کو فُول (یعنی بے وقوف) بنا کر خوش ہوتے ہیں، مثلاً کسی کو یہ خبر دی جاتی ہے کہ ٭آپ کا جَوان بیٹا فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے شدید زخمی ہے اور اسے فلاں اَسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے ٭آپ کا فلاں رشتہ دار انتقال کرگیا ہے ٭آپ کی دکان میں آگ لگ گئی ہے ٭آپ کی دکان میں چوری ہوگئی ہے ٭آپ کے پلاٹ پر قبضہ ہوگیا ہے ٭آپ کی گاڑی چوری ہوگئی ہے ٭آپ کے بیٹے کو تاوان کے لئے اغوا کرلیا گیا وغیرہ۔ پھر حقیقت کھلنے پر ”اپریل فُول، اپریل فُول“ کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ جو جتنی صفائی اور چالاکی سے دوسرے کو بے وقوف بنائے وہ خود کو اُتنا ہی عقل مند سمجھتا ہے مگر اس’’ فُول ‘‘کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کتنی بڑی’’ بُھول ‘‘کر چکا ہے ۔”اپریل فُول“ منانے والے دانستہ یا نادانستہ طور پرکن لوگوں کی پیروی کر رہے ہیں۔

اپریل فُول کے آغاز کے بارے میں مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ جب کئی سو سال پہلے عیسائی اَفواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتِح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں جب قابض اَفواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گِرِفْتار مسلمان حُکمران کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ اجداد آئے تھے، قابض افواج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئیں۔ جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور اپنی شناخت پوشیدہ کرلی، اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا۔

پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ جس ملک میں جانا چاہیں جاسکیں۔ اب چونکہ ملک میں اَمْن قائم ہوچکا تھا اس لئے مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا، مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے، اَلْحَمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دیے گئے، جہاز آکر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا اور انکی بڑی خاطر مدارت کی۔ یہ ’’یکم اپریل‘‘ کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو بَحری جہاز میں بٹھایا گیا مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان تو بچ جائے گی۔ دوسری طرف حکمران اپنے مَحَلَّات میں جشن منانے لگے، جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوَداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دئیے، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان، خواتین، بچے اور کئی ایک مریض بھی تھے ۔جب جہاز گہرے سَمُندر میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سَمُندر میں ڈوب گئے۔ اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بیوقوف (فُول) بنایا۔

اپریل فُول کو ”جُھوٹ کا عالَمی دن“ بھی کہا جاسکتا ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:اِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَاِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي اِلَى النَّارِ وَاِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتّٰى يُكْتَبَ عِنْدَاللہِ كَذَّابًایعنی بے شک جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔
مذاق میں بھی جُھوٹ نہ بولیں:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے :بندہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا حتی کہ مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑنا چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔
اپریل فُول میں دوسروں کی پریشانی پر خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے،ایسوں کو ڈرنا چاہئے کہ وہ بھی اس کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں،عربی مقولہ ہے : مَنْ ضَحِکَ ضُحِکَ یعنی جو کسی پر ہنسے گا اُس پر بھی ہنسا جائے گا۔
افسوس! اتنی خرابیوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود ہر سال یکم (فرسٹ) اپریل کو جھوٹ بول کر، اپنے مسلمان بھائیوں کو پریشان کرکے ان کی ہنسی اُڑانے کو تفریح کا نام دیاجاتا ہے، اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ عقلِ سلیم عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم
islamic events © 2020,

Thursday, March 26, 2020

Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

 Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

نزولِ آیتِ درود شریف
۔۲۔شعبان جشنِ نزولِ آیتِ درود و سلام


ماہِ شعبان نزولِ آیتِ درود شریف کا مہینہ:حضرت علامہ امام شہاب الدین قسطلانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ’’آیتِ درود کا نزول ‘‘شعبان المعظم میں ہوا۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
۵سورة الأحزاب ، آیت ٦
ترجمہ کنزالایمان:بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
 Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

islamic events © 2020,

Thursday, March 19, 2020

Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]

Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]

حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ


تاریخِ اسلام کے قابلِ فخر اور لائقِ اتباع خلیفہ وحکمران حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ٦۱یا ٦۳ھ میں مدینۂ منوَّرہ میں آنکھ کھولی اور مدینے شریف ہی میں عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف۲۵سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ اور طائف کے گورنر بنے اور ٦ سال یہ خدمت شاندار طریقے سے اَنجام دینے کے بعد مُستَعفِی ہوکر خلیفہ کے مُشِیرِ خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد ۱۰ صفر المظفر ۹۹ھ کو تقریباً۳٦ سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کے دن خلیفہ مقرَّر ہوئے آپ خلیفہ کا منصب سنبھالنے سے پہلے شاہانہ زندگی بسر کیا کرتے تھے مگر ظلم وجبر اور حق تلفی اس میں بھی نہ تھی، جب خلیفہ بنے تو زندگی کا رنگ ہی بدل گیا، اِس شان سے خِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سُنہرے حُرُوف سے لکھا گیا۔


حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:سابق خلیفہ کی تدفین سے واپسی پر آپ کو عمدہ نسل کے خچر اور تُرکی گھوڑے پیش کئے گئے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کی گئی: شاہی سواریاں ہیں، ان پر خلیفہ ہی سوار ہوتا ہے، آپ قبول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے ،انہیں مسلمانوں کے بیتُ المال میں جمع کروادو۔ یونہی آپ کی نشست کےلئےشاہی خیمے اور شامیانے لگائے گئے تو فرمایا:انہیں بھی بیتُ المال میں جمع کروادو حتّٰی کہ جب اپنے ذاتی خچر پر سوار ہو کر شاہی قالینوں تک پہنچے تو ان کو پاؤں سے ہٹا کر نیچے چٹائی پر بیٹھ گئے اور ان بیش قیمت قالینوں کو بھی بیتُ المال میں جمع کروا دیا۔
سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی ساری زمینیں، غلام، کنیزیں، لباس، خوشبوئیں اور دیگر سامان بیچ کر ساری رقم راہِ خدا میں خرچ کر دی،یہاں تک کہ آپ کی ترغیب پر آپ کی سعادت مند بیوی نے بھی اپنے زیورات بیتُ المال میں جمع کروادیئے۔گھریلو اخراجات کے لئے روزانہ صرف دو دِرہم وظیفہ لیتےاور مرتے دم تک بیتُ المال سے کبھی کوئی چیز ناحق نہیں لی،خلیفۂ وقت کی بیوی نے گھر کے لئے کوئی ملازمہ نہ رکھی بلکہ سارے کام خود کرتیں۔
سابق خلیفہ کے بیٹے رَوح نے چند مسلمانوں کی دکانوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ان کی شکایت پر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حکم دیا کہ ان کی دکانیں واپس کر دو اور اپنے پولیس افسر سے فرمایا: اگر یہ دکانیں واپس کر دے تو ٹھیک ورنہ سزائے موت دے دینا۔ چنانچہ اس نے ناجائز قبضہ چھوڑ کر دکانیں اصل مالکوں کو لوٹا دیں۔

اندھوں، محتاجوں، فالج کے مریضوں اور اپاہجوں کے لئے سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے وظائف مقرر فرمائے بلکہ ان کے روزمرّہ کے کاموں کے لئے انہیں غلام بھی دیئے، حتّٰی کہ غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کروائیں، مقروضوں کے قرض اتارے اور کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کی خیرخواہی کو فراموش نہیں کیا۔
الغرض حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں ظلم و ناانصافی اور کرپشن کا سدِّ باب کر کے عدل و انصاف اور عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کر دی کہ اگر کوئی صدقہ دینا چاہتا تو صدقہ لینے والا کوئی نہ ملتا، یہاں تک کہ جو لوگ آپ کی خلافت سے پہلے صدقہ لیا کرتے تھے وہ خوش حال ہو کر خود صدقہ دینے کے قابل ہوگئے۔
Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ۲۵ رجب ۱۰۱ھ بدھ کے دن اپنا سفر حیات مکمل کیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت آپ کی عمر صِرف ۳۹سال تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلب کے قریب دَیر سِمعان میں سِپُردِ خاک کیا گیا جو شام میں ہے ۔

islamic events © 2020,

Thursday, March 12, 2020

Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


سلسلۂ سہروردیہ کے عظیم پیشوا، قطبُ الاقطاب ، منبعِ جود و کرم، حضرت رکنِ عالم ابوالفتح شاہ رکنُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت ۹ رمضانُ المبارک ٦۴۹ھ بروز جمعۃ ُ المبارک مدینۃُ الاولیاء ملتان (پاکستان )میں ہوئی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان شیخ الاسلام حضرت بہاءُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کا نام” رکنُ الدین“ رکھا۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس گھر انے میں آنکھ کھولی وہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عبادت و ریاضت، والدِ ماجد حضرت صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا زہد وتقویٰ اوروالدۂ ماجدہ بی بی راستی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھا کی شب بیداریوں کے حسین مناظرتھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ طہارت وپاکیزگی کاخاص خیال فرماتی تھیں۔ جب بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دودھ پلاتیں تو پہلے وضو فرماتیں، چونکہ حافظۂ قرآن تھیں اور روزانہ ایک قرآن ختم کرنے کا معمول تھا اس لئے دودھ پلاتے وقت بھی تلاوت ِ قرآن پاک فرماتی رہتیں،اگراس دوران اذان ہوتی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سنتے۔ حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ نے گھر میں سب خادِماؤں کو حکم دے رکھا تھا کہ بچے کو سوائے اسمِ جلالت (اللہ)کےکسی اور لفظ کی تلقین نہ کریں اور نہ ہی ان کی موجودگی میں کو ئی دوسرا لفظ بولیں اس اِحتیاط کانتیجہ یہ نکلا کہ آپ نےاپنی زبان مبارک سےجو پہلا لفظ نکالا وہ اسمِ جلالت ’’اللہ‘‘ ہی تھا۔

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ظاہری تعلیم و تربیت آپ کے والدِ ماجدشیخ صدرُ الدین عارِفرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اور باطنی تربیت جدِّ امجد حضرت سیّدنابہاء ُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمائی۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھائی اوروالدِ بزرگوار شاہ صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کو قرآنِ پاک حفظ کروانا شروع کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ قرآن شریف کا پاؤ پارہ تین مرتبہ پڑھتے تو وہ آپ کو زبانی یاد ہو جاتا۔حفظِ قرآن کےبعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے علمِ دین حاصل کرنا شروع کیا اور صرف ۱٦ سال کی عمر میں تمام مُرَوّجہ عُلُوم سے فراغت حاصل فرمائی اور تفسیر و حدیث،فقہ و بیان ،ادب و شعر اور ریاضی و منطق وغیرہ میں کمال پیدا کر لیا ۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نو عمری ہی میں روحانیت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، تواضع، شفقت،حلم، عفو، حىا، وقار وغیرہ جملہ صفات میں کمال حاصل کیا۔

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنےوالدِ ماجد شیخ صدرُ الدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اورجدِّ امجدحضرت شیخ بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےحقیقی جانشین تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۵۲ سال تک نیکی کی دعوت عام کی اور مریدین و محبین کو راہِ حق دکھائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ مبارک پر بے شمار مخلوق نے بیعت کی اور آپ کی نظر ِولایت سے درجاتِ کمال تک پہنچی۔ آپ کے نیک بخت خلفا اپنے وقت کے بڑے بڑے اصفیا و اتقیا ہوئے۔
Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]
حضرت رکنِ عالم ابوالفتح شاہ رکنُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۱٦ رجب (بعض روایت میں ۷ جُمادَى الاولىٰ)۷۳۵ھ بروز منگل سجدے کی حالت میں ہوا۔ شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کامزارمبارک غیاث الدین تغلق کے بنائے گئے مقبرے میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔اس کی عمارت بہت خوبصورت اورمدینۃ الاولیاء(ملتان) کی پہچان ہے۔
islamic events © 2020,

Thursday, March 5, 2020

Ummul Momineen Syeda Zainab Bint E Jahsh R.A[ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا]

Ummul Momineen Syeda Zainab Bint E Jahsh R.A[ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا]

ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا


ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام برہ تھا۔ سرکار دوعالم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نام تبدیل فرما کر زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا رکھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام الحکم تھی۔ اور پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو” اَوَّاہَۃ“ کے لقب سے نوازا ہے، جس کے معنیٰ ہے: خشوع کرنے والی اور خدا کے حضور گِڑگِڑانے والی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی والدہ امیمہ بنتِ عبدالمطلب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہاپہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ہوا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو سرور دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :جاؤ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے لئے پیام دو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچا اور کہا کہ تمہیں خوشی ہو کہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے پیام دوں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی جب تک کہ میں اپنے رب عزوجل سے مشورہ نہ کرلوں ۔ پھر وہ اٹھیں اور مصلّے پر پہنچیں اور سر بسجود ہو کر بارگاہِ الہٰی میں عرض کیا: اے خدا! تیرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کی زوجیت کے لائق ہوں تو مجھے ان کی زوجیت میں دے دے۔ اسی وقت ان کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔

فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ؕ وَکَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوۡلًا ﴿۳۷﴾ترجمۂ کنزالایمان :پھرجب زید کی غرض اس سے نکل گئی توہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے اور اللہ کا حکم ہو کر رہنا(پ۲۲،الاحزاب:۳۷)۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر آثار وحی ظاہرہوئے چند لمحے بعد مسکراتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :کون ہے جو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جائے اور انہیں بشارت دے کہ حق تعالیٰ نے ان کو میری زوجیت میں دے دیا ہے اور نازل شدہ آیت تلاوت فرمائی۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خادمہ حضرت سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوڑیں اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بشارت دی اور انہوں نے یہ خوشخبری سنانے پر اپنے زیورات اتار کر حضرت سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطا کردیئے اور سجدہ شکر بجا لائیں اور دو ماہ روزہ سے رہنے کی نذر مانی۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا:مجھے چند فضیلتیں ایسی حاصل ہیں جوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی کسی اور زوجہ کوحاصل نہیں ایک یہ ہے کہ میرے جد اورآپ کے جد ایک ہیں ،دوسرے یہ کہ میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرے یہ کہ اس قصہ میں جبرائیل علیہ السلام سفیر و گواہ تھے۔

ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے گیارہ حدیثیں مروی ہیں دو متفق علیہ یعنی بخاری ومسلم میں ہیں اور باقی نو دیگر کتابوں میں ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۱۴ رجب ۲۰ھ میں ہوا۔ان کے وصال کی خبر جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچی توفرمایا: ”پسندیدہ خصلت والی،فائدہ پہنچانے والی،یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنے والی دنیا سے چلی گئی۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نمازجنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔جنت البقیع میں دفن کی گئ حضور کے وصال کے بعد سب سے پہلے ازواج مطہرات میں سے جس نے وفات پائی وہ آپ ہی تھیں۔
islamic events © 2020,

Tuesday, March 3, 2020

Hazrat Sayyiduna Salman Farsi R.A[حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]

Hazrat Sayyiduna Salman Farsi R.A[حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ


زُہدو قَناعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پھولوں کو اپنے دامن پر سجانے والے، حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے تابعی اور رحمتِ عالَم،نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے مشہور صحابیِ رسول،سَلْمانُ الخَیْر حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اِسلام لانے کا واقعہ بہت اہم ہے۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اَصْفَہَان (ایران) کے رہنے والے تھے۔ آباو اَجداد آتش پرَسْت تھے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بچپن سے ہی سادہ اور خاموش طبیعت تھے، ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ہر وقت آتش کَدے کی آگ روشن رکھنے میں مصروف رہتے مگر جلد ہی مجوسیّت سے بیزارہوگئے اور دینِ حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکل کر شام جاپہنچے ،جہاں مختلف دینی و مذہبی راہنماؤں کی صحبت اختیار کی۔ ہر مذہبی راہنما یا تو خود یہ وصِیَّت کردیا کرتا کہ میرے بعدفلاں کے پاس جانا ،یا پھر حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خودپوچھ لیا کرتے کہ اب کس ہستی کی صحبت اختیار کروں؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آخری رَاہِب سے پوچھا تواس نے کہا : اے حق کے مُتَلاشی بیٹے!اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظرنہیں آتا جس کی صحبت میں تمہیں اَمن و سلامتی نصیب ہو، ہاں!اب نبیِّ آخِرُ الزَّماں کے ظہور کا وقت قریب ہے جو دینِ ابراہیمی پر ہوں گے، اُس مقام کی جانب ہجرت کریں گے جو دو پہاڑوں کے درمیان ہوگا، جہاں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جائیں گے، اُن کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہر ِنَبُوَّت ہوگی،وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے۔ رَاہِب کے انتقال کے بعد حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِس وصیت کو پیشِ نظر رکھا اور ایک قافلے کے ہمراہ آگے بڑھ گئے۔راستے میں قافلے والوں کی نیَّت بدل گئی اور انہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا یوں حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلامی کی زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا۔تقریباً دس بار بیچے گئے بالآخر بکتے بِکاتے مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ گئے۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک مرتبہ کھجور کے درخت پر چڑھ کر کھجور توڑ رہے تھے کہ خبر سنی کہ نبیِّ آخِرُ الزَّمَاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرماکر مدینے کے قریب مقامِ قُبا میں تشریف لا چکے ہیں اسی وقت دل بے قرار ہوگیا،فوراً نیچے تشریف لائے اور خبر لانے والے سے دوبارہ یہ روح پَروَر خبر سننے کی خواہش ظاہر کی یہودی آقا نے اپنے غلام کا تَجَسُّس اور بے قراری دیکھی توغصےہوگیا اور ایک زوردار تھپڑ رسید کرکے کہنے لگا: تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب؟ جاؤ!دوبارہ کام پر لگ جاؤ، حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوگئے لیکن متاعِ صَبْر و قَرار تو لُٹ چکا تھا لہٰذا جونہی موقع ملا چند تازہ کھجوریں ایک طَباق میں رکھ کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یہ صدقہ ہے، قبول فرمالیجئے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا:تم کھالو،اور خود تناول نہ کیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دل میں کہا: ایک نشانی تو پوری ہوئی ، اگلی مرتبہ پھر کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ یہ ہدیہ ہے، قبول فرمالیجئے ۔ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کوکھانے کا اشارہ کیا اور خود بھی تناول فرمایا ۔ دل میں کہا:دوسری نشانی بھی پوری ہوئی اس درمیان میں سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دونوں شانوں کے درمیان’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘کو بھی دیکھ لیا اس لئے فوراً اسلام قبول کر لیااور اس دَر کے غلام بن گئے جس پر شاہَوں کے سَر جھکتے ہیں۔
سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر و اُحد میں حصہ نہ لے سکے پھر تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے آزادی کا تاج سر پر سجایا اور ایک سرفروش مجاہد کی طرح بعد میں آنے والے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی کا تھا ۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سرورِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے والہانہ محبت تھی، اپنے وقت کا بیشتر حصہ دربار ِ رسالت میں گزارتے اور فیضانِ نبوی سے بَہرہ مَند ہوتے، اِس کے بدلے میں بارگاہ ِ رسالت سے سَلْمَانُ الْخَیْر اور سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت (سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں) جیسی نویدِ جاں فِزا سننے کی سعادت پائی ایک اور مقام پر اس بشارتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے کہ جنّت” سلمان فارسی“ کی مشتاق ہے۔جب کوئی پوچھتا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے والد کون ہیں؟ تو ارشاد فرماتے: میں دینِ اِسلام کا بیٹا سلمان ہوں۔
سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک عرصہ تک مدینہ میں قیام فرمایا پھرعہد ِفاروقی میں عراق میں سکونت اختیارکرلی۔کچھ عرصے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مدائِن کا گورنرمقرر کردیا۔گورنر کے اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بڑی سادہ زندگی گزاری، ایک دن مدائن کے بازار میں جارہے تھے کہ ایک ناوَاقِف شخص نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھانے کے لئے کہا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ چپ چاپ سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگے، لوگوں نے دیکھا تو کہا: اے صاحبِ رسول!آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھا رکھا ہے؟ لائیے! ہم اِسے اٹھالیتے ہیں۔ سامان کا مالک ہَکَّا بَکَّا رَہ گیا،پھر نہایت شرَمْسار ہوکر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے معافی مانگی اور سامان اُتروانا چاہالیکن حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:میں نے تمہارا سامان اٹھانے کی نیّت کی تھی،اب اِسے تمہارے گھرتک پہنچا کر ہی دَم لوں گا۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ راہ ِ خدا میں مال خرچ کرنے کو محبوب رکھا کرتے تھے چنانچہ بطورِ تنخواہ چار یا پانچ ہزار درہم ملتے لیکن پوری تنخواہ مساکین میں تقسیم فرمادیتے اور خود کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بناکر چند درہم کماتے اور اسی پر اپنا گزر بسر کرتےتھے ۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے۱۰ رَجَبُ المُرَجَّب۳۳یا۳٦ ہجری میں اس دنیا سے کوچ فرمایا، مزارِ مبارک عراق کے شہر مدائن میں ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ساڑھے تین سو سال (جبکہ بعض روایات کے مطابق اڑھائی سو سال) کی طویل عمر پائی۔
islamic events © 2020,

Monday, March 2, 2020

Hazrat Sayyiduna Imam Jafar Sadiq R.A[حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Hazrat Sayyiduna Imam Jafar Sadiq R.A[حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


ماہ ِرَجَبُ المُرَجَّب کو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کانام”جعفر“ اورکُنیّت”ابوعبداللہ“ہے ۔حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ہیں۔سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق کے لقب سے جانا جاتا ہے۔

حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تابعی ہیں۔
کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔

خوش اَخلاقی سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی۔
حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۱۵رَجَبُ الْمُرَجَّب ۱۴۸ ہجری کو٦۸سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔

islamic events © 2020,

Saturday, February 29, 2020

Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا  امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


بحیثیتِ مسلمان یہ بات قابلِ اِفْتِخار ہے کہ ہماری تاریخ ایسی جلیل ا لقدر شخصیات سے مُزَیَّن ہے جن کی علمی وَجاہَت کا شہرہ اَطرافِ عالَم میں پھیلا ہوا ہے ۔ ان ہی روشن و تابَنْدہ شخصیات میں سے ایک دَرَخْشاں نام عالمُ العَصْر، ناصرُ الحدیث، فَقِیْہُ الْمِلَّۃ، حضرت سیّدنا امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بھی ہے، جو مجتہد، فقہِ شافِعی کے بانی ا ور عظیم رُوحانی شخصیت کے مالک ہیں۔ ۱۵۰ھ میں جس دن حضرت سیّدنا امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کا وصال ہوا اسی دن غَزَّہ (فلسطین)میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کےدادا کے دادا حضرت سیّدنا شافِع رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابیِ رسول تھے،انہی کی نسبت سے آپ شافعی کہلاتے ہیں۔
کم عُمری میں ہی امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یتیم ہو گئے تھے اس لئے آپ کی پرْورِش اور تربیت آپ کی والدہ نے فرمائی۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو تحصیلِ علم اور تیر اَندازی کابے حد شوق تھا، تیر اندازی میں مہارت کا یہ عالَم تھا کہ آپ کے دس میں سے دس نشانے دُرُست لگتے تھے۔

معاشی اِعتبارسے امام شافعی کے ابتدائی حالات نہایت دُشوار گزار تھے، آپ کی والدہ کے پاس استاد صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھااور کاغذ نہ ہونے کی وجہ سےکبھی ہڈیوں پراور کبھی صفحات مانگ کر ان پر احادیثِ مبارکہ لکھا کرتے۔ شدید تنگ دَسْتی کے باعث تین بار آپ کو اپنا تمام مال حصولِ علم کے لئے فروخت کرنا پڑا۔اتنے سخْت حالات کے باجود آپ طلبِ علم میں لگے رہے،حصولِ علم کےلئےعرب کےدیہاتوں میں آپ نے ۲۰ سال گزارے اور وہاں کی زبانوں اور اَشعار پر عبور حاصل کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہت ذہین تھے،۷ سال کی عمر میں کلامِ مجید اور۱۰سال کی عمر میں حدیث شریف کی کتاب”مؤطَّا امام مالِک“ صرف ۹ راتوں میں حِفظ کر لی تھی۔۱۵ سال کی عمر میں آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی لیکن اِحتِیاط کے پیشِ نظر آپ نےاس وقت تک فتویٰ دینا شروع نہ کیا جب تک دس ہزار حدیثیں یاد نہ کر لیں۔
سیّدنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے اپنے دور کے عظیمُ المَرْتَبَت علمائے کرام و بزُرْگانِ دین سے علم حاصل کیا،ان میں حضرت سیّدنا امام مالک ، حضرت سیّدنامُسلم بن خالد، حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنہ اورحضرت سیّدنا فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں، جبکہ آپ کے تلامِذہ میں حضرت سیّدنا امام احمد بن حنبل، حضرت سیّدناامام عبداللہ حُمَیْدی اور حضرت سیّدناامام حسن زعفرانی علیہم الرحمۃجیسی نابِغۂ روزگار شخصیات شامل ہیں۔

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی جلالتِ علمی کو دیکھتے ہوئے آپ کو یمن میں نَجْران کا قاضی مقرر کیاگیا۔ دیگر اَکابِرین کے علاوہ آپ نے حضرت سیّدنا امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے جلیل القدر شاگرد حضرت سیّدنا امام محمدرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بھی اِکتسابِِ فیض کیا۔ علومِ مُرَوَّجہ کی تکمیل کے دوران عراق ہی سے آپ نے اپنی فقہ (یعنی فقہِ شافعی) کی تَروِیج و تَدوین کا آغاز فرمایا۔ آپ نے ہی سب سے پہلے اصول ِ فقہ کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی نیز ابوابِِ فقہ اور اس کے مسائل کی دَرَجَہ بَندی فرمائی۔حضرت سیّدنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے دَرْس و تَدریس اور تَصانیف کے ذریعے علمِ دین کی خوب اِشاعت فرمائی جس کا فیضان آج تک جاری ہے، آپ کی تَصانیف میں کتاب ”الاُمّ“، ”اَلرِّسالَۃ“، ”اِخْتِلافُ الْحَدِیث“، ”اَدَبُ الْقاضی“ اور ”اَلسَّبَق و الرَّمْی“ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
مُجْتَہدِ وقت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نہایت عبادت گزار اور قراٰنِ پاک کی کثْرت سے تِلاوت کرنے والے تھے، آپ روزانہ ایک قراٰنِ پاک اور رمضانُ المبارک میں ساٹھ قراٰن مجید کا ختم فرماتے۔ آپ نہایت خوش آواز قاریِ قراٰن تھے، آپ کی تلاوت سن کر لوگوں پر رِقّت طاری ہو جاتی تھی۔

زُہد و قَناعت میں بھی سیّدنا امام شافعی کا اعلیٰ مقام تھا،چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: میں نےسولہ سال سےکبھی سیر ہو کرکھانا نہیں کھایا۔آپ کی شرافت و عظمت کا شہرہ زبانِ زدِ عام تھا یہاں تک کہ اُس دور کے صاحِبانِ کمال نے بھی آپ کے فَضائل و مَناقِب بیان فرمائے، چنانچہ حضرت سیّدنا سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں: امام شافعی(علیہ رحمۃ اللہ الکافی) اپنے زمانے کے اَفراد میں سب سے اَفضل ہیں۔ حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی دنیا کے لئے سورج اور لوگوں کے لئےخیر و عافیَّت کی طرح ہیں جس طرح ان دونوں کا کوئی مُتَبادِل نہیں اسی طرح ا ن کا بھی کوئی مُتَبادِل نہیں۔
زندگی کی ۵۴ بہاریں دیکھنے کے بعد علم و فضل کا یہ چمکتا سورج ۳۰ رجب ۲۰۴ھ جمعرات کی رات کو مصر میں غروب ہوا۔
Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا  امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزار مبارَک جبل مقطم کے قریب قَرافہ صغریٰ (قاہرہ مصر) میں مَرجعِ عوام وخواص ہے ۔
islamic events © 2020,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...