حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ
تاریخِ اسلام کے قابلِ فخر اور لائقِ اتباع خلیفہ وحکمران حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ٦۱یا ٦۳ھ میں مدینۂ منوَّرہ میں آنکھ کھولی اور مدینے شریف ہی میں عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف۲۵سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ اور طائف کے گورنر بنے اور ٦ سال یہ خدمت شاندار طریقے سے اَنجام دینے کے بعد مُستَعفِی ہوکر خلیفہ کے مُشِیرِ خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد ۱۰ صفر المظفر ۹۹ھ کو تقریباً۳٦ سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کے دن خلیفہ مقرَّر ہوئے آپ خلیفہ کا منصب سنبھالنے سے پہلے شاہانہ زندگی بسر کیا کرتے تھے مگر ظلم وجبر اور حق تلفی اس میں بھی نہ تھی، جب خلیفہ بنے تو زندگی کا رنگ ہی بدل گیا، اِس شان سے خِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سُنہرے حُرُوف سے لکھا گیا۔
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:سابق خلیفہ کی تدفین سے واپسی پر آپ کو عمدہ نسل کے خچر اور تُرکی گھوڑے پیش کئے گئے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کی گئی: شاہی سواریاں ہیں، ان پر خلیفہ ہی سوار ہوتا ہے، آپ قبول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے ،انہیں مسلمانوں کے بیتُ المال میں جمع کروادو۔ یونہی آپ کی نشست کےلئےشاہی خیمے اور شامیانے لگائے گئے تو فرمایا:انہیں بھی بیتُ المال میں جمع کروادو حتّٰی کہ جب اپنے ذاتی خچر پر سوار ہو کر شاہی قالینوں تک پہنچے تو ان کو پاؤں سے ہٹا کر نیچے چٹائی پر بیٹھ گئے اور ان بیش قیمت قالینوں کو بھی بیتُ المال میں جمع کروا دیا۔
سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی ساری زمینیں، غلام، کنیزیں، لباس، خوشبوئیں اور دیگر سامان بیچ کر ساری رقم راہِ خدا میں خرچ کر دی،یہاں تک کہ آپ کی ترغیب پر آپ کی سعادت مند بیوی نے بھی اپنے زیورات بیتُ المال میں جمع کروادیئے۔گھریلو اخراجات کے لئے روزانہ صرف دو دِرہم وظیفہ لیتےاور مرتے دم تک بیتُ المال سے کبھی کوئی چیز ناحق نہیں لی،خلیفۂ وقت کی بیوی نے گھر کے لئے کوئی ملازمہ نہ رکھی بلکہ سارے کام خود کرتیں۔
سابق خلیفہ کے بیٹے رَوح نے چند مسلمانوں کی دکانوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ان کی شکایت پر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حکم دیا کہ ان کی دکانیں واپس کر دو اور اپنے پولیس افسر سے فرمایا: اگر یہ دکانیں واپس کر دے تو ٹھیک ورنہ سزائے موت دے دینا۔ چنانچہ اس نے ناجائز قبضہ چھوڑ کر دکانیں اصل مالکوں کو لوٹا دیں۔
اندھوں، محتاجوں، فالج کے مریضوں اور اپاہجوں کے لئے سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے وظائف مقرر فرمائے بلکہ ان کے روزمرّہ کے کاموں کے لئے انہیں غلام بھی دیئے، حتّٰی کہ غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کروائیں، مقروضوں کے قرض اتارے اور کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کی خیرخواہی کو فراموش نہیں کیا۔
الغرض حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں ظلم و ناانصافی اور کرپشن کا سدِّ باب کر کے عدل و انصاف اور عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کر دی کہ اگر کوئی صدقہ دینا چاہتا تو صدقہ لینے والا کوئی نہ ملتا، یہاں تک کہ جو لوگ آپ کی خلافت سے پہلے صدقہ لیا کرتے تھے وہ خوش حال ہو کر خود صدقہ دینے کے قابل ہوگئے۔
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ۲۵ رجب ۱۰۱ھ بدھ کے دن اپنا سفر حیات مکمل کیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت آپ کی عمر صِرف ۳۹سال تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلب کے قریب دَیر سِمعان میں سِپُردِ خاک کیا گیا جو شام میں ہے ۔
No comments:
Post a Comment