Saturday, March 30, 2019

Shab e Meraj un Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam [شب معراج النبیﷺ]

Shab e Meraj un Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam [شب معراج النبیﷺ]

شب معراج النبیﷺ
واقعہ معراج النبیﷺ

پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام(خانہ کعبہ)سے مسجد اقصٰی(بیت المقدس)تک جس کے گرداگردہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سنتادیکھتاہے۔(پارہ ۱۵،بنی اسرائیل:آیت ۱)۔
ہجرت کے دو سال پہلے،۲۷ رجب پیر کی رات جب محبوبِ رب ﷺ آرام فرما ہیں گھر کی چھت کھلی،حضرت جبرائیل علیہ السلام نیچے حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو گھر سے مسجد حرام میں لاکر حطیمِ کعبہ میں لٹا دیا۔ابھی آپ ﷺ پر اُونگھ کا اثر باقی تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ کے سینہ پاک سے قلب اطہر باہر نکالا اور آب زمزم سے غسل دیا پھر ایمان وحکمت سے بھر کر واپس سینہ مبارک میں رکھ دیا۔

اس کے بعد پیارے آقاﷺ کے لیے براق کی سواری پیش کی گئی جس پر سوار ھو کر حرمِ کعبہ سے حرمِ بیتُ المقدس کا نورانی سفر کیا اس سفر میں سیدناجبرائیل علیہ السلام بھی آپﷺ کے ساتھ تھے۔سفر میں نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ،کوہ طور اور بیتُ لحم ،تین جگہ نماز ادا کی۔
پھر نبی کریمﷺ اس مقدس شہر تشریف لے آئے اور مسجد اقصیٰ میں پہنچے براق کو باندھ دیا۔پیارے آقاﷺ اندر تشریف لائے جہاں تمام انبیائےکرام علیہالسلام کو جمع کیا گیا تھا۔سب نے نبی کریمﷺکو خوش آمدید کہا پھر نماز کا وقت ہوا تمام انبیائے علیہالسلام نے امامت کے لے آپﷺ کو آگے کیا اور آپﷺ نے تمام انبیائے علیہالسلام کی امامت کی۔

بیت المقدس کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد رحمتِ دوالعالمﷺ نے آسمان کی طرف سفر شروع کیا اور تیزی سے پہلے آسمان پر پہنچے جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے آپﷺ نے ملاقات کی پھر دوسرے آسمان کا سفر شروع کیا یہاں آپ ﷺ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملاخط فرمایا،یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں آپﷺ ان سے ملے۔اس کے بعد تیسرے آسمان پر حضرت یونس علیہ السلام ،چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام،پانچوے آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام،چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتوے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملاخط فرمایا ۔آپﷺ نے سلام کیا ابراہیم علیہ السلام نے آپﷺ کو خوش آمدید کہا اور ملاقات کی۔
بعض روایات میں آتا ہے نبی کریمﷺنے بیت المعمور(فرشتوں کا قبلہ) پر فرشتوں کو نماز پڑھائی ۔پھر آپﷺ سدرۃالمنتہیٰ تشریف لائے جب پیارے آقاﷺ سدرۃالمنتہیٰ سے آگے بڑے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام وہیں ٹھہرگئے اور آگے جانے سے معذرت خواہ ہوے ۔پھر آپﷺ اور بلندی کی طرف سفر کیا اور مستویٰ کے مقام پر تشریف لائے وہاں سے آگے عرشِ عُلیٰ آیا پھر اس سے بھی اوپر تشریف لائے جسے لامکاں کہاجاتاہے۔
یہاں اللّٰہ عزوجل نے اپنے محبوبﷺکو وہ قربِ خاص عطافرمایاکہ نہ کسی کو ملا نہ ملے۔سرکارِعالی وقارﷺنے بیداری کی حالت میں سر کی آنکھوں سے اپنے پیارے رب عزوجل کا دیدار کیا اور بے واسطہ کلام کا شرف بھی حاصل کیا۔ رب تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو کیا وحی کی ،محبوب نے کیا وحئ سنیں،یہ اللّٰہ عزوجل جانے یا محبوبِ ربﷺ جانے مختصر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ دین و دنیا کی جسمانی و روحانی،ظاہری و باطنی اور علوم و معارف جو کچھ بھی رب عزوجل اپنے حبیبﷺکو اپنی حکمت کے مطابق عطا فرمانا چاہتا تھا وہ سب کچھ عطا فرمادیا۔

اللّٰہ کریم نے ۵۰ نمازوں کا تحفہ بھی عطا فرمایا۔ جب نبی کریمﷺ واپس آتے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے عرض کی کے آپﷺ کے رب نے آپﷺ کی امت پر کیا فرض فرمایا؟ارشادفرمایا:۵۰ نمازیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا واپس رب کے پاس جائے اور کمی کا سوال کیجئے امت سے یہ نہیں ہو سکے گا میں نے بنی اسرائیل کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔چناچہ آپﷺ رب عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوے اور عرض کیا ،اے میرے رب!میری امت پر تخفیف فرما۔اللّٰہ نے پانچ نمازے کم کر دیں۔یوں ۹ بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپﷺ کو رب عزوجل کی بارگاہ میں بیجا اور ۵۰ سے ۵ نمازے فرض ہوئی۔ اس کے بعد آپﷺ سدرۃالمنتہٰی پر تشریف لائے جہاں تمام فرشتوں نے آپﷺکی زیارت کی۔پھر آپﷺ کو پوری جنت کی سیر کرائی گئی اور جنت ہی سے آپﷺ کو جہنم کا معائنہ کرایا گیا۔اس کے بعد واپسی کا سفر ہوا ،یہ رب کی قدرت ہے کہ رات کے مختصر حصے میں آقاﷺکو مسجد الحرام سے لامکاں کی سیر کرائی۔۔۔۔۔

copywrites © 2019,

Tuesday, March 26, 2019

Hazrat Sayyiduna Ameer Muawiya R.A[حضرت سیِّدنا امیر ِمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ]

Hazrat Sayyiduna Ameer Muawiya R.A[حضرت سیِّدنا امیر ِمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ]

حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ


صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے۔کاتبِ وحی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ٦ ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضیَ اللہُ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مرحبا فرمایا۔
حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں۔
حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ کئی مرتبہ مصطفٰے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم وحِلم کی یوں دعا دی:اے اللہ!معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے۔ کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا: یااللہ!معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لئے ذریعۂ ہدایت بنا۔ کبھی نوازشوں کی بارش کو یوں برسایا: اے اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا عِلم عطا فرما اور اس سے عذاب کو دور فرما۔ کبھی خاص مجلس میں ان کی عظمت پر یوں مہر لگائی:معاویہ کو بلاؤ اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھو، وہ قَوی اور امین ہیں۔کبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: معاویہ! اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا۔

حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔
جنگِ صِفِّین کے بعد امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے بارے میں فرمایا: معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل)۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔
حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔
حضرت سیّدُنا امام حُسین رضیَ اللہُ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ رضیَ اللہُ عنہ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔

ایک بار حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہَا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں، حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ نے حصولِ بَرَکت کے لئے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا۔
حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ رضیَ اللہُ عنہ کے پاس حضور سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف، ردائے اقدس، قمیصِ اطہر، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا۔
کاتبِ وحی، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ نے ۲۲رجب المرجب٦۰ھ میں ۷۸سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا۔ حضرت سیّدُنا ضَحّاک بن قَیس رضیَ اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔
islamic events © 2020,

Wednesday, March 20, 2019

Konday[کونڈے]

Konday[کونڈے]

اہلسنت کے نزدیک جیسے ہر فاتحہ جائز ہے اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ نیاز جائز ہے اور
کونڈوں کی نیاز کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نیاز کونڈوں میں رکھا جاتا ہے اس بنا پر اسے کونڈے کی نیاز کہا جاتا ہے ۔ اور چونکہ کونڈے ایصال ثواب کی ایک صورت ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بے شمار دلائل ہیں۔

وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم
۔زندوں کا فوت شدہ کے لئیے دعا کرنا یا صدقہ و خیرات کرنا فوت شدہ کے لئے نفع کا باعث ہے۔

امام اجل علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں


اتفق اھل السنۃ علی ان الاموات ینتفعون من سعی الاحیائ۔
ہل سنت کا اسپر اتفاق ہے کہ مرنے والوں کو زندوں کے عمل سے فائدہ پہنچتا ہے۔
مذہب حنفی کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ شریف میں ہے

ان الانسان لہ ال یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوتا او صوما او غیرھا عند اھل السنۃ والجماعۃ۔
بے شک انسان اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے شخص کو پہنچاسکتا ہے خواہ نماز کا ہو یا روزہ کا ہو یا صدقہ و خیرات وغیرھا کا یہ اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں


کونڈوں کی نیاز جو کہ ١٥یا ٢٢(بعض لوگ ٢٧رجب کو بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے خاندان میں)رجب میں اما م جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کیلئے کی جاتی ہے نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحسن ہے ۔کیونکہ یہ ایک ایصالِ ثواب ہے اور ایصال ثواب کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ ہاں اس میں بعض لوگوں نے اُسی جگہ کھانے کی پابندی لگا رکھی ہے یہ بے جا اور غلط پابندی ہے جیسے گھر سے باہر کھانا نہ بھیجا جائے وغیرہ

۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں


ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایصال ثواب کے لئے پوڑیوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہیں مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام داستان عجیب ہے، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھاتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں وہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلا کر ایصال ثواب کریں۔

مفتی احمد یا رخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ رجب کے کونڈوں پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں

رجب کے مہینہ میں ٢٢(١٥ یا ٢٧)تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور برکت والی ہے ۔ آپ ارشادفرماتے ہیں: اس مہینہ کی ٢٢تاریخ کو یو۔پی میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے ہوتے ہیں نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ،سوا پاؤ شکر،سوا پاؤ گھی کی پوریاں بنا کر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں۔ اس رسم میں صرف دوخرابیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ فاتحہ دلانے والوں کا عقیدہ ہوگیا ہے کہ اگر فاتحہ کے ا ول لکڑی والے کا قصہ نہ پڑھا جائے تو فاتحہ نہ ہوگی اور یہ پوریاں گھر سے باہر نہیں جاسکتیں اور بغیر کونڈے کے یہ فاتحہ نہیں ہوسکتی ۔ یہ سارے خیال غلط ہیں۔ ۔

اور رہی بات اختلاف تاریخ کی تو ایصال ثواب کے لئے کوئی مخصوص تاریخ متعین کرنا بھی ضروری نہیں۔چاہے ١٥ کو کریں ٢٢ کو کریں یا ٢٧ کو ،جس دن آپ کو زیادہ سہولت ہو اس دن کرلیں ۔
لیکن !!! خیال رہے کہ کونڈوں کی نیاز کے موقع پر جو کہانی عام طور پر سنائی جاتی ہے وہ من گھڑت ہے اس کی کوئی اصل نہیں لہذا نہ وہ کہانی پڑھی جائے نہ ہی سنی جائے۔ اسی طرح بعض جگہ یہ قید لگاتے ہیں کہ یہیں بیٹھ کر کھاؤ کہیں اور نہ لے جاؤ یہ قید بھی بے جا اور عبس ہے۔ ان باتوں سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح بعض یہ قید لگاتے ہیں کہ مٹی کے برتن وغیرہ میں کونڈے کی نیاز ضروری ہے، یہ قید بھی ضروری نہیں بہر حال ان قیودات سے اجتناب کیا جائے اور خالص ایصال ثواب کو مد نظر رکھا جائے۔
اہل سنت والے جو رجب کے کونڈوں کا اہتمام کرتے ہیں  وہ سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصال ثواب کے لئے کرتے ہیں

Tuesday, March 19, 2019

* * * قصیدہِ معراج ﷺ * * *

قصیدہِ معراج اَز اعلٰیحضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ




وہ سَرورِ کِشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طَرَب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

بہار ہے شادیاں مبارک،، چمن کو آبادیاں مبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنا دل کا بولتے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

یہ جَوت پڑتی تھی ان کے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی،،،، جگہ جگہ نصب آئینے تھے

نئی دُلہن کی پھبَن میں کعبہ نِکھر کے سنورا سَنور کے نِکھرا
حَجَر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

نظر میں دُولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سَر جُھکائے
سیاہ پردے کے منہ پہ آنچل تجلی ءِ ذاتِ بحت کے تھے۔

خوشی کے بادل اُمڈ کے آئے دِلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آگئے تھے۔۔

یہ جُھوما میزابِ زَر کا جُھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر،
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے

دُلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلاف ِمُشکیں جو اُڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے۔۔۔

پہاڑیوں کا وہ حُسنِ تزیین وہ اُونچی چوٹی وہ نازو تمکین،،،،،،
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے

نَہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا۔۔
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل ٹکے تھے

پُرانا پُر داغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا,,,
ہجوم تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے

غُبار بن کر نثار جائیں،،،، کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں،
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے

خُدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالَم،،
جب اُن کو جُھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں کا دُولہا بنا رہے تھے

اُتار کر اُن کے رُخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا۔
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے،
نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بَھر لئے تھے

بچا جو تلوؤں کا اُن کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ وروغن
جنہوں نے دُولہا کا پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے،،

خبر یہ تحویلِ مِہر کی تھی کہ رُت سُہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چُکے تھے

تجلی ءِ حق کا سہرا سَر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور،،
دو رویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لِپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے،

ابھی نہ آئے تھے پُشتِ زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلّک
صدا شفاعت نے دی مُبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے،

عجب نہ تھا رَخش کا چمکنا غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا،
شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھی تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے

ہجوم ِاُمید ہے گھٹاؤ،، مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ،
ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے

اُٹھی جو گَردِ رہِ مُنور وہ نور برسا کہ راستے بھر،
گِھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل امنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے

ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھنا مِٹے تھے،،

بُراق کے نقشِ سم کے صدقے وہ گُل کِھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبن لہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہارہے تھے،

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِر عیاں ہوں معنی ءِ اول آخر،
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا،
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے

نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر،،
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی ٹپکتے انجم کے آبلے تھے

یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا،
صفائے راہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے

بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت،
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے

وہ ظلِ رحمت وہ رُخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کِھلنے پاتے،،
سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے

چلا وہ سروِ چمن خراماں نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں،
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے

جھلک سی اک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سُواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے،

تھکے تھے رُوح الامین کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چُھوٹی امّید ٹوٹی نگاہ ِحسرت کے ولولے تھے،

رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو کا پُھوٹا
خِرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے،

جِلو میں جو مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چَڑھا تھا دَم تیور آگئے تھے

قوی تھے مُرغانِ وہم کے پَر اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر،
اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے

سُنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے کہ لے مبارک ہوں تاج والے
وُہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج ِ شرف تیرے تھے،

یہ سُن کے بے خود پکار اُٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا؟
پھر اُن کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پِھرے تھے

جُھکا تھا مُجرے کو عرش ِ اعلیٰ گِرے تھے سجدے میں بزم ِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گِرد قُربان ہورہے تھے،

ضیائیں کُچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قِندیلیں جِھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے،

یہی سماں تھا کہ پیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے،

بڑھ اے مُحَمّد ﷺ قریں ہو احْمَد، قریب آ سَرورِ مُمَجّد ،
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

تَبارکَ الله شان تیری تُجھی کو زیبا ہے بے نیازی،
کہیں تو وہ جوش لَن تَرانِی کہیں تقاضے وصال کے تھے

خِرد سے کہہ دو کہ سر جُھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے؟؟

سُراغِ این و متٰی کہاں تھا نشانِ کَیف و اِلیٰ کہاں تھا؟
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے

اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا،،
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے

بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جُھکتے ادب سے رُکتے،
جو قرب اُنہیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

پَر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا اُدھر کا
تنزلوں میں ترقی افزا دَنیٰ تدلّیٰ کے سلسلے تھے،

ہُوا یہ آخر کہ ، ایک بَجْرا تَمَوُّجِ بَحَرِ ہُو میں اُبھرا،
دَنیٰ کی گودی میں اُن کو لے کر فنا کے لنگر اُٹھادیئے تھے

کِسے مِلے گھاٹ کا کنارہ کِدھر سے گزرا کہاں اُتارا،
بھرا جو مثل ِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خُود چھپے تھے

اُٹھے جو قصر ِدَنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے،
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے

وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غُنچہ و گل کا فرق اٹھایا،
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے

مُحیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل،
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے

حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے،
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے مِلے تھے

زبانیں سُوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں،،،
بھنوَر کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے

وُہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر،
اُسی کے جلوے اُسی سے مِلنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے

کمانِ اِمکاں کے جُھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو،
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

اِدھر سے تھیں نذر شہ نمازیں اُدھر سے انعام ِخُسرَوِی میں
سلام ورحمت کے ہار گُندھ کر گلوئے پُر نور میں پڑے تھے،

زبان کو انتظار گفتن تو گوش کو حسرت شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے

وہ برج بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اس قمر کے قدم گئے تھے

سرور مقدم کے روشنی تھی کہ تابشوں سے مہ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے

طرب کی نازش کہ ہاں لچکئے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکئے
یہ جوش ضدین تھا کہ پودے کشاکش ارہ کے تلے تھے

خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آ لئے تھے

ن بئِ رحمت شفیعِ اُمت رضا پہ لِلّہ ہو عنایت
اِسے بھی اُن خلعتوںسے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے


copywrites © 2019,

Wednesday, March 13, 2019

Hazrat Sayyiduna Maula Ali Mushkil Kusha Sher e Khuda Karam Allah Wajhul Kareem[حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ]

Hazrat Sayyiduna Maula Ali Mushkil Kusha Sher e Khuda Karam Allah Wajhul Kareem[حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ]

امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم


امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم عام الفیل کے ۳۰ برس بعد ۱۳ رجب المرجب مکّۃ المکرَّمہ میں پیدا ہوئے۔آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی والِدۂ ماجِدہ حضرت سیِّدَتُنافاطِمہ بنتِ اَسَد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اپنے والِد کے نام پر آپ کا نام’’حیدر‘‘رکھا،والِدنےآپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا نام ’’عَلی‘‘رکھا۔حُضورِ پُرنُور،شافعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’ اَسَدُاللّٰہ ‘‘(اللہ کا شیر) کے لَقَب سے نَوازا ،اِس کے عِلاوہ ’’مُرتَضٰی(یعنی چُنا ہوا)‘‘،’’ کَرّار(یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا)‘‘،’’شیرِ خُدا‘‘اور’’مولامشکِل کُشا‘‘سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کےمَشہور اَلقابات ہیں۔
حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مکّی مَدَنی آقا،مُصْطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچازاد بھائی ہیں۔ خلیفۂ چہارُم،جانَشینِ رسول،زَوجِ بَتُول حضرتِ سیِّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی کُنْیَت’’ابُوالحَسن‘‘ اور ’’ابُوتُراب‘‘ہے۔ حضور ﷺ کی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے شوہر اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے والد گرامی ہیں ۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی مُشرف باسلام ہوئے۔

حضرتِ سیِّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ ان دس خوش نصیب صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری سنائی گئی۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم انتہائی طاقتور، انتہائی بہادر اور بے مثال شہسوار تھے۔ آپؓ کے ہاتھ پر بہت سی اسلامی فتوحات ہوئیں۔ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ ان تمام غزوات بدر،احد،خندق،بنی قریطہ اور حنین وغیرہ میں کارہائے نمایاں دکھائے۔ متعدد سرایا آپ کی ماتحتی میں بھیجے گئے جنہیں آپ نے کامیابی سے سر انجام دیا ۔ آنحضرت ﷺ کے غسل اور تجہیزوتکفین وغیرہ کی سعادت بھی حضرتِ سیِّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ ہی کے حصہ میں آئی غرض شروع سے آخر تک آپ رسول اللہ ﷺ کے دستِ بازو رہے۔
سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حَضْرتِ علی سے فرمایا: اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، یعنی تُم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ(عَلَیْہِ السَّلَام ) کے نزدیک ہارون(عَلَیْہِ السَّلَام ) کا مَقام تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں .
عَلِيٌ مِّنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأسِيْ مِنْ بَدَنِيْ ،یعنی علی کاتعلُّق مجھ سےایساہی ہےجیسامیرے سَرکاتَعلُّق میرے جِسْم سےہے.
اَنَادَارُالْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہیں۔

Hazrat Sayyiduna Maula Ali Mushkil Kusha Sher e Khuda Karam Allah Wajhul Kareem[حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ]
امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی مُشکِل کُشا شیرِ خُدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ۱۷ یا ۱۹ رمضان۴۰ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱ رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔

islamic events © 2020,

Thursday, March 7, 2019

Rajab-ul-Murajjab[رجب المرجب ]

Rajab-ul-Murajjab[رجب المرجب ]

رجب المرجب


اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے (ما ثبت من السنۃ )۔
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ )۔

حدیث شریف کے مطابق “رجب المرجب” اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر “معراج شریف” سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، ” حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔” (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)۔

٭رجب ظلم چھوڑ دینے کا مہینہ ہے۔
٭رجب توبہ کا مہینہ ہے۔
٭رجب عبادت کا مہینہ ہے۔
٭رجب نیکیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔
٭رجب کھیتی (فصل) بونے کا مہینہ ہے ۔
٭ رجب معجزات کا مہینہ ہے۔

islamic events © 2020,

Monday, March 4, 2019

Khawaja Gharib Nawaz R.A[خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Khawaja Gharib Nawaz R.A[خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

خواجہ غریب نواز
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی وِلادت۵۳۷ھ کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی۔خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا اسمِ گرامی حسن ہے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نَجِیبُ الطَّرَفَیْن سیِّد ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےمشہوراَلقابات میں مُعینُ الدّین،غریب نواز، سلطانُ الہِنْد اور عطائے رسول شامل ہیں۔
حُصُولِ عِلْم کے لئے خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شام، بغداداور کِرمان وغیرہ کاسفر بھی اِختیارفرمایا نیز کثیر بزرگانِ دین سے اِکْتِسابِ فیض کیاجن میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پیرومُرشِدحضرت خواجہ عثمان ہارْوَنی اورپیرانِ پیرحُضُور غوثِ پاک حضرت شیخ سیِّدعبدالقادِرجیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کے اَسماء قابلِ ذِکْر ہیں۔ زیارتِ حَرَمَیْن کےدوران بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ہند کی وِلایت عطا ہوئی اوروہاں دین کی خدمت بجا لانے کا حکم ملا۔ چنانچہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سرزمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج واِشَاعَت کا آغاز فرمایا۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کےنورمیں داخل ہو گئے، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام،سادو اَجے پال اورحاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حلقۂ اِرادت(مریدوں) میں شامل ہو گئے۔

ہِندمیں حضرت خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی آمد ایک زبردست اسلامی، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی۔خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا۔ سلطانُ الہِنْد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نےبَرِّ عظیم(پاک وہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا۔ دِہلی میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَا قِی نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دئیے۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پاکپتن کو،شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح وتبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح، کَشْفُ الاَسْرَار، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے۔

خواجہ غریب نوازرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےتقریباً۴۵ سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔
حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین چشتی اَجمیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وِصال ٦ رجب٦۳۳ھ کو اَجمیرشریف(راجِستھان،ہند) میں ہوااور یہیں مزارشریف بنا۔آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

Khawaja Gharib Nawaz R.A[خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی کرامات

مُردہ زندہ کر دیا


ایک بار اجمیر شریف کے حاکم نے کسی شخص کو بے گناہ سُولی پر چڑھا دیا اور اُس کی ماں کو کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے کی لاش لے جائے۔ دُکھیاری ماں غم سے نڈھال ہوکر روتی ہوئی حضرت خواجہ غریب نوازرَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہوئی اور فریادکرنے لگی : آہ! میراسَہارا چھن گیا، میرا گھر اُجڑ گیا، میرا ایک ہی بیٹا تھا حاکمِ نے اُسے بے قُصور سُولی پر چڑھادیا ۔ یہ سن کرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جلال میں آگئے اورفرمایا: مجھے اس کی لاش کے پاس لے چلو۔جونہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لاش کے قریب پہنچے تو اشارہ کرکے فرمایا: اے مقتول! اگر حاکمِ وقت نے تجھے بے قُصُور سُولی دی ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے اُٹھ کھڑا ہو۔ لاش میں فوراً حرکت پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔

چھاگل میں تالاب


حُضور خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چند مُرید ایک بار اجمیر شریف کے مشہور تالاب اَنا ساگر پرغسل کرنے گئے تو کافروں نے شور مچا دیا کہ یہ مسلمان ہمارے تالاب کو” ناپاک“ کررہے ہیں۔ چُنانچِہ وہ حضرات لَوٹے اورسارا ماجرا خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کردیا۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک خادم کو چھاگل(پانی رکھنے کا مٹی کا برتن) دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس میں تالاب کا پانی بھر لاؤ۔خادِم نےجونہی پانی بھرنے کے لئے چھاگل تالاب میں ڈالاتواس کا سارا پانی چھاگل میں آگیا۔لوگ پانی نہ ملنے پر بے قرار ہوگئے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمتِ سراپا کرامت میں حاضِر ہو کر فریاد کرنے لگےچُنانچِہ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خادِم کو حکم دیا کہ جاؤ اور پانی واپَس تالاب میں اُنڈَیل دو۔ خادِم نے حکم کی تعمیل کی تو اَنا ساگر پھر پانی سے لبریز ہوگیا۔

islamic events © 2020,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...