Thursday, March 26, 2020

Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

 Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

نزولِ آیتِ درود شریف
۔۲۔شعبان جشنِ نزولِ آیتِ درود و سلام


ماہِ شعبان نزولِ آیتِ درود شریف کا مہینہ:حضرت علامہ امام شہاب الدین قسطلانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ’’آیتِ درود کا نزول ‘‘شعبان المعظم میں ہوا۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
۵سورة الأحزاب ، آیت ٦
ترجمہ کنزالایمان:بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
 Nuzool e Ayat e Durood [نزولِ آیتِ درود ]

islamic events © 2020,

Thursday, March 19, 2020

Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]

Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]

حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ


تاریخِ اسلام کے قابلِ فخر اور لائقِ اتباع خلیفہ وحکمران حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ٦۱یا ٦۳ھ میں مدینۂ منوَّرہ میں آنکھ کھولی اور مدینے شریف ہی میں عِلم وعمل کی منزلیں طے کرنے کے بعد صِرف۲۵سال کی عمر میں مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ اور طائف کے گورنر بنے اور ٦ سال یہ خدمت شاندار طریقے سے اَنجام دینے کے بعد مُستَعفِی ہوکر خلیفہ کے مُشِیرِ خاص بن گئے اور سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد ۱۰ صفر المظفر ۹۹ھ کو تقریباً۳٦ سال کی عمر میں جمعۃُ المُبارک کے دن خلیفہ مقرَّر ہوئے آپ خلیفہ کا منصب سنبھالنے سے پہلے شاہانہ زندگی بسر کیا کرتے تھے مگر ظلم وجبر اور حق تلفی اس میں بھی نہ تھی، جب خلیفہ بنے تو زندگی کا رنگ ہی بدل گیا، اِس شان سے خِلافت کی ذمّہ داریوں کو نِبھایا کہ تاریخ میں اُن کا نام سُنہرے حُرُوف سے لکھا گیا۔


حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:سابق خلیفہ کی تدفین سے واپسی پر آپ کو عمدہ نسل کے خچر اور تُرکی گھوڑے پیش کئے گئے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کی گئی: شاہی سواریاں ہیں، ان پر خلیفہ ہی سوار ہوتا ہے، آپ قبول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے ،انہیں مسلمانوں کے بیتُ المال میں جمع کروادو۔ یونہی آپ کی نشست کےلئےشاہی خیمے اور شامیانے لگائے گئے تو فرمایا:انہیں بھی بیتُ المال میں جمع کروادو حتّٰی کہ جب اپنے ذاتی خچر پر سوار ہو کر شاہی قالینوں تک پہنچے تو ان کو پاؤں سے ہٹا کر نیچے چٹائی پر بیٹھ گئے اور ان بیش قیمت قالینوں کو بھی بیتُ المال میں جمع کروا دیا۔
سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی ساری زمینیں، غلام، کنیزیں، لباس، خوشبوئیں اور دیگر سامان بیچ کر ساری رقم راہِ خدا میں خرچ کر دی،یہاں تک کہ آپ کی ترغیب پر آپ کی سعادت مند بیوی نے بھی اپنے زیورات بیتُ المال میں جمع کروادیئے۔گھریلو اخراجات کے لئے روزانہ صرف دو دِرہم وظیفہ لیتےاور مرتے دم تک بیتُ المال سے کبھی کوئی چیز ناحق نہیں لی،خلیفۂ وقت کی بیوی نے گھر کے لئے کوئی ملازمہ نہ رکھی بلکہ سارے کام خود کرتیں۔
سابق خلیفہ کے بیٹے رَوح نے چند مسلمانوں کی دکانوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ان کی شکایت پر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حکم دیا کہ ان کی دکانیں واپس کر دو اور اپنے پولیس افسر سے فرمایا: اگر یہ دکانیں واپس کر دے تو ٹھیک ورنہ سزائے موت دے دینا۔ چنانچہ اس نے ناجائز قبضہ چھوڑ کر دکانیں اصل مالکوں کو لوٹا دیں۔

اندھوں، محتاجوں، فالج کے مریضوں اور اپاہجوں کے لئے سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے وظائف مقرر فرمائے بلکہ ان کے روزمرّہ کے کاموں کے لئے انہیں غلام بھی دیئے، حتّٰی کہ غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کروائیں، مقروضوں کے قرض اتارے اور کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے کی خیرخواہی کو فراموش نہیں کیا۔
الغرض حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں ظلم و ناانصافی اور کرپشن کا سدِّ باب کر کے عدل و انصاف اور عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کر دی کہ اگر کوئی صدقہ دینا چاہتا تو صدقہ لینے والا کوئی نہ ملتا، یہاں تک کہ جو لوگ آپ کی خلافت سے پہلے صدقہ لیا کرتے تھے وہ خوش حال ہو کر خود صدقہ دینے کے قابل ہوگئے۔
Hazrat Sayyiduna Umar Bin Abdul Aziz R.A[حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ]
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ۲۵ رجب ۱۰۱ھ بدھ کے دن اپنا سفر حیات مکمل کیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت آپ کی عمر صِرف ۳۹سال تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلب کے قریب دَیر سِمعان میں سِپُردِ خاک کیا گیا جو شام میں ہے ۔

islamic events © 2020,

Thursday, March 12, 2020

Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


سلسلۂ سہروردیہ کے عظیم پیشوا، قطبُ الاقطاب ، منبعِ جود و کرم، حضرت رکنِ عالم ابوالفتح شاہ رکنُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت ۹ رمضانُ المبارک ٦۴۹ھ بروز جمعۃ ُ المبارک مدینۃُ الاولیاء ملتان (پاکستان )میں ہوئی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان شیخ الاسلام حضرت بہاءُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کا نام” رکنُ الدین“ رکھا۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس گھر انے میں آنکھ کھولی وہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عبادت و ریاضت، والدِ ماجد حضرت صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا زہد وتقویٰ اوروالدۂ ماجدہ بی بی راستی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھا کی شب بیداریوں کے حسین مناظرتھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ طہارت وپاکیزگی کاخاص خیال فرماتی تھیں۔ جب بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دودھ پلاتیں تو پہلے وضو فرماتیں، چونکہ حافظۂ قرآن تھیں اور روزانہ ایک قرآن ختم کرنے کا معمول تھا اس لئے دودھ پلاتے وقت بھی تلاوت ِ قرآن پاک فرماتی رہتیں،اگراس دوران اذان ہوتی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سنتے۔ حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ نے گھر میں سب خادِماؤں کو حکم دے رکھا تھا کہ بچے کو سوائے اسمِ جلالت (اللہ)کےکسی اور لفظ کی تلقین نہ کریں اور نہ ہی ان کی موجودگی میں کو ئی دوسرا لفظ بولیں اس اِحتیاط کانتیجہ یہ نکلا کہ آپ نےاپنی زبان مبارک سےجو پہلا لفظ نکالا وہ اسمِ جلالت ’’اللہ‘‘ ہی تھا۔

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ظاہری تعلیم و تربیت آپ کے والدِ ماجدشیخ صدرُ الدین عارِفرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اور باطنی تربیت جدِّ امجد حضرت سیّدنابہاء ُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمائی۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھائی اوروالدِ بزرگوار شاہ صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کو قرآنِ پاک حفظ کروانا شروع کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ قرآن شریف کا پاؤ پارہ تین مرتبہ پڑھتے تو وہ آپ کو زبانی یاد ہو جاتا۔حفظِ قرآن کےبعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے علمِ دین حاصل کرنا شروع کیا اور صرف ۱٦ سال کی عمر میں تمام مُرَوّجہ عُلُوم سے فراغت حاصل فرمائی اور تفسیر و حدیث،فقہ و بیان ،ادب و شعر اور ریاضی و منطق وغیرہ میں کمال پیدا کر لیا ۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نو عمری ہی میں روحانیت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، تواضع، شفقت،حلم، عفو، حىا، وقار وغیرہ جملہ صفات میں کمال حاصل کیا۔

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنےوالدِ ماجد شیخ صدرُ الدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اورجدِّ امجدحضرت شیخ بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےحقیقی جانشین تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۵۲ سال تک نیکی کی دعوت عام کی اور مریدین و محبین کو راہِ حق دکھائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ مبارک پر بے شمار مخلوق نے بیعت کی اور آپ کی نظر ِولایت سے درجاتِ کمال تک پہنچی۔ آپ کے نیک بخت خلفا اپنے وقت کے بڑے بڑے اصفیا و اتقیا ہوئے۔
Qutbul Aqtab Shah Rukne Alam R.A[قطبُ الاقطاب شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]
حضرت رکنِ عالم ابوالفتح شاہ رکنُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۱٦ رجب (بعض روایت میں ۷ جُمادَى الاولىٰ)۷۳۵ھ بروز منگل سجدے کی حالت میں ہوا۔ شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کامزارمبارک غیاث الدین تغلق کے بنائے گئے مقبرے میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔اس کی عمارت بہت خوبصورت اورمدینۃ الاولیاء(ملتان) کی پہچان ہے۔
islamic events © 2020,

Thursday, March 5, 2020

Ummul Momineen Syeda Zainab Bint E Jahsh R.A[ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا]

Ummul Momineen Syeda Zainab Bint E Jahsh R.A[ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا]

ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا


ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام برہ تھا۔ سرکار دوعالم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نام تبدیل فرما کر زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا رکھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام الحکم تھی۔ اور پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو” اَوَّاہَۃ“ کے لقب سے نوازا ہے، جس کے معنیٰ ہے: خشوع کرنے والی اور خدا کے حضور گِڑگِڑانے والی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی والدہ امیمہ بنتِ عبدالمطلب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہاپہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ہوا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو سرور دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :جاؤ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے لئے پیام دو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچا اور کہا کہ تمہیں خوشی ہو کہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے پیام دوں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی جب تک کہ میں اپنے رب عزوجل سے مشورہ نہ کرلوں ۔ پھر وہ اٹھیں اور مصلّے پر پہنچیں اور سر بسجود ہو کر بارگاہِ الہٰی میں عرض کیا: اے خدا! تیرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کی زوجیت کے لائق ہوں تو مجھے ان کی زوجیت میں دے دے۔ اسی وقت ان کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔

فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ؕ وَکَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوۡلًا ﴿۳۷﴾ترجمۂ کنزالایمان :پھرجب زید کی غرض اس سے نکل گئی توہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے اور اللہ کا حکم ہو کر رہنا(پ۲۲،الاحزاب:۳۷)۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر آثار وحی ظاہرہوئے چند لمحے بعد مسکراتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :کون ہے جو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جائے اور انہیں بشارت دے کہ حق تعالیٰ نے ان کو میری زوجیت میں دے دیا ہے اور نازل شدہ آیت تلاوت فرمائی۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خادمہ حضرت سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوڑیں اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بشارت دی اور انہوں نے یہ خوشخبری سنانے پر اپنے زیورات اتار کر حضرت سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطا کردیئے اور سجدہ شکر بجا لائیں اور دو ماہ روزہ سے رہنے کی نذر مانی۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا:مجھے چند فضیلتیں ایسی حاصل ہیں جوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی کسی اور زوجہ کوحاصل نہیں ایک یہ ہے کہ میرے جد اورآپ کے جد ایک ہیں ،دوسرے یہ کہ میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرے یہ کہ اس قصہ میں جبرائیل علیہ السلام سفیر و گواہ تھے۔

ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے گیارہ حدیثیں مروی ہیں دو متفق علیہ یعنی بخاری ومسلم میں ہیں اور باقی نو دیگر کتابوں میں ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۱۴ رجب ۲۰ھ میں ہوا۔ان کے وصال کی خبر جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچی توفرمایا: ”پسندیدہ خصلت والی،فائدہ پہنچانے والی،یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنے والی دنیا سے چلی گئی۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نمازجنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔جنت البقیع میں دفن کی گئ حضور کے وصال کے بعد سب سے پہلے ازواج مطہرات میں سے جس نے وفات پائی وہ آپ ہی تھیں۔
islamic events © 2020,

Tuesday, March 3, 2020

Hazrat Sayyiduna Salman Farsi R.A[حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]

Hazrat Sayyiduna Salman Farsi R.A[حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ


زُہدو قَناعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، تقویٰ اور پرہیز گاری کے پھولوں کو اپنے دامن پر سجانے والے، حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے تابعی اور رحمتِ عالَم،نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے مشہور صحابیِ رسول،سَلْمانُ الخَیْر حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اِسلام لانے کا واقعہ بہت اہم ہے۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اَصْفَہَان (ایران) کے رہنے والے تھے۔ آباو اَجداد آتش پرَسْت تھے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بچپن سے ہی سادہ اور خاموش طبیعت تھے، ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ہر وقت آتش کَدے کی آگ روشن رکھنے میں مصروف رہتے مگر جلد ہی مجوسیّت سے بیزارہوگئے اور دینِ حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکل کر شام جاپہنچے ،جہاں مختلف دینی و مذہبی راہنماؤں کی صحبت اختیار کی۔ ہر مذہبی راہنما یا تو خود یہ وصِیَّت کردیا کرتا کہ میرے بعدفلاں کے پاس جانا ،یا پھر حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خودپوچھ لیا کرتے کہ اب کس ہستی کی صحبت اختیار کروں؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آخری رَاہِب سے پوچھا تواس نے کہا : اے حق کے مُتَلاشی بیٹے!اس دنیا میں مجھے کوئی ایسا شخص نظرنہیں آتا جس کی صحبت میں تمہیں اَمن و سلامتی نصیب ہو، ہاں!اب نبیِّ آخِرُ الزَّماں کے ظہور کا وقت قریب ہے جو دینِ ابراہیمی پر ہوں گے، اُس مقام کی جانب ہجرت کریں گے جو دو پہاڑوں کے درمیان ہوگا، جہاں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جائیں گے، اُن کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہر ِنَبُوَّت ہوگی،وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے۔ رَاہِب کے انتقال کے بعد حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِس وصیت کو پیشِ نظر رکھا اور ایک قافلے کے ہمراہ آگے بڑھ گئے۔راستے میں قافلے والوں کی نیَّت بدل گئی اور انہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا یوں حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلامی کی زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا۔تقریباً دس بار بیچے گئے بالآخر بکتے بِکاتے مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ گئے۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک مرتبہ کھجور کے درخت پر چڑھ کر کھجور توڑ رہے تھے کہ خبر سنی کہ نبیِّ آخِرُ الزَّمَاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرماکر مدینے کے قریب مقامِ قُبا میں تشریف لا چکے ہیں اسی وقت دل بے قرار ہوگیا،فوراً نیچے تشریف لائے اور خبر لانے والے سے دوبارہ یہ روح پَروَر خبر سننے کی خواہش ظاہر کی یہودی آقا نے اپنے غلام کا تَجَسُّس اور بے قراری دیکھی توغصےہوگیا اور ایک زوردار تھپڑ رسید کرکے کہنے لگا: تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب؟ جاؤ!دوبارہ کام پر لگ جاؤ، حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوگئے لیکن متاعِ صَبْر و قَرار تو لُٹ چکا تھا لہٰذا جونہی موقع ملا چند تازہ کھجوریں ایک طَباق میں رکھ کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یہ صدقہ ہے، قبول فرمالیجئے،پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا:تم کھالو،اور خود تناول نہ کیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دل میں کہا: ایک نشانی تو پوری ہوئی ، اگلی مرتبہ پھر کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ یہ ہدیہ ہے، قبول فرمالیجئے ۔ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کوکھانے کا اشارہ کیا اور خود بھی تناول فرمایا ۔ دل میں کہا:دوسری نشانی بھی پوری ہوئی اس درمیان میں سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دونوں شانوں کے درمیان’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘کو بھی دیکھ لیا اس لئے فوراً اسلام قبول کر لیااور اس دَر کے غلام بن گئے جس پر شاہَوں کے سَر جھکتے ہیں۔
سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر و اُحد میں حصہ نہ لے سکے پھر تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے آزادی کا تاج سر پر سجایا اور ایک سرفروش مجاہد کی طرح بعد میں آنے والے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی کا تھا ۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سرورِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے والہانہ محبت تھی، اپنے وقت کا بیشتر حصہ دربار ِ رسالت میں گزارتے اور فیضانِ نبوی سے بَہرہ مَند ہوتے، اِس کے بدلے میں بارگاہ ِ رسالت سے سَلْمَانُ الْخَیْر اور سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت (سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں) جیسی نویدِ جاں فِزا سننے کی سعادت پائی ایک اور مقام پر اس بشارتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئے کہ جنّت” سلمان فارسی“ کی مشتاق ہے۔جب کوئی پوچھتا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے والد کون ہیں؟ تو ارشاد فرماتے: میں دینِ اِسلام کا بیٹا سلمان ہوں۔
سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک عرصہ تک مدینہ میں قیام فرمایا پھرعہد ِفاروقی میں عراق میں سکونت اختیارکرلی۔کچھ عرصے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مدائِن کا گورنرمقرر کردیا۔گورنر کے اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بڑی سادہ زندگی گزاری، ایک دن مدائن کے بازار میں جارہے تھے کہ ایک ناوَاقِف شخص نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھانے کے لئے کہا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ چپ چاپ سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگے، لوگوں نے دیکھا تو کہا: اے صاحبِ رسول!آپ نے یہ بوجھ کیوں اٹھا رکھا ہے؟ لائیے! ہم اِسے اٹھالیتے ہیں۔ سامان کا مالک ہَکَّا بَکَّا رَہ گیا،پھر نہایت شرَمْسار ہوکر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے معافی مانگی اور سامان اُتروانا چاہالیکن حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:میں نے تمہارا سامان اٹھانے کی نیّت کی تھی،اب اِسے تمہارے گھرتک پہنچا کر ہی دَم لوں گا۔

حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ راہ ِ خدا میں مال خرچ کرنے کو محبوب رکھا کرتے تھے چنانچہ بطورِ تنخواہ چار یا پانچ ہزار درہم ملتے لیکن پوری تنخواہ مساکین میں تقسیم فرمادیتے اور خود کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بناکر چند درہم کماتے اور اسی پر اپنا گزر بسر کرتےتھے ۔
حضرت سیدنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے۱۰ رَجَبُ المُرَجَّب۳۳یا۳٦ ہجری میں اس دنیا سے کوچ فرمایا، مزارِ مبارک عراق کے شہر مدائن میں ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ساڑھے تین سو سال (جبکہ بعض روایات کے مطابق اڑھائی سو سال) کی طویل عمر پائی۔
islamic events © 2020,

Monday, March 2, 2020

Hazrat Sayyiduna Imam Jafar Sadiq R.A[حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Hazrat Sayyiduna Imam Jafar Sadiq R.A[حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


ماہ ِرَجَبُ المُرَجَّب کو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کانام”جعفر“ اورکُنیّت”ابوعبداللہ“ہے ۔حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ہیں۔سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق کے لقب سے جانا جاتا ہے۔

حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تابعی ہیں۔
کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔

خوش اَخلاقی سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی۔
حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۱۵رَجَبُ الْمُرَجَّب ۱۴۸ ہجری کو٦۸سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔

islamic events © 2020,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...