Saturday, February 29, 2020

Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا  امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


بحیثیتِ مسلمان یہ بات قابلِ اِفْتِخار ہے کہ ہماری تاریخ ایسی جلیل ا لقدر شخصیات سے مُزَیَّن ہے جن کی علمی وَجاہَت کا شہرہ اَطرافِ عالَم میں پھیلا ہوا ہے ۔ ان ہی روشن و تابَنْدہ شخصیات میں سے ایک دَرَخْشاں نام عالمُ العَصْر، ناصرُ الحدیث، فَقِیْہُ الْمِلَّۃ، حضرت سیّدنا امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بھی ہے، جو مجتہد، فقہِ شافِعی کے بانی ا ور عظیم رُوحانی شخصیت کے مالک ہیں۔ ۱۵۰ھ میں جس دن حضرت سیّدنا امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کا وصال ہوا اسی دن غَزَّہ (فلسطین)میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کےدادا کے دادا حضرت سیّدنا شافِع رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابیِ رسول تھے،انہی کی نسبت سے آپ شافعی کہلاتے ہیں۔
کم عُمری میں ہی امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یتیم ہو گئے تھے اس لئے آپ کی پرْورِش اور تربیت آپ کی والدہ نے فرمائی۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو تحصیلِ علم اور تیر اَندازی کابے حد شوق تھا، تیر اندازی میں مہارت کا یہ عالَم تھا کہ آپ کے دس میں سے دس نشانے دُرُست لگتے تھے۔

معاشی اِعتبارسے امام شافعی کے ابتدائی حالات نہایت دُشوار گزار تھے، آپ کی والدہ کے پاس استاد صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھااور کاغذ نہ ہونے کی وجہ سےکبھی ہڈیوں پراور کبھی صفحات مانگ کر ان پر احادیثِ مبارکہ لکھا کرتے۔ شدید تنگ دَسْتی کے باعث تین بار آپ کو اپنا تمام مال حصولِ علم کے لئے فروخت کرنا پڑا۔اتنے سخْت حالات کے باجود آپ طلبِ علم میں لگے رہے،حصولِ علم کےلئےعرب کےدیہاتوں میں آپ نے ۲۰ سال گزارے اور وہاں کی زبانوں اور اَشعار پر عبور حاصل کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہت ذہین تھے،۷ سال کی عمر میں کلامِ مجید اور۱۰سال کی عمر میں حدیث شریف کی کتاب”مؤطَّا امام مالِک“ صرف ۹ راتوں میں حِفظ کر لی تھی۔۱۵ سال کی عمر میں آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی لیکن اِحتِیاط کے پیشِ نظر آپ نےاس وقت تک فتویٰ دینا شروع نہ کیا جب تک دس ہزار حدیثیں یاد نہ کر لیں۔
سیّدنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے اپنے دور کے عظیمُ المَرْتَبَت علمائے کرام و بزُرْگانِ دین سے علم حاصل کیا،ان میں حضرت سیّدنا امام مالک ، حضرت سیّدنامُسلم بن خالد، حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنہ اورحضرت سیّدنا فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں، جبکہ آپ کے تلامِذہ میں حضرت سیّدنا امام احمد بن حنبل، حضرت سیّدناامام عبداللہ حُمَیْدی اور حضرت سیّدناامام حسن زعفرانی علیہم الرحمۃجیسی نابِغۂ روزگار شخصیات شامل ہیں۔

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی جلالتِ علمی کو دیکھتے ہوئے آپ کو یمن میں نَجْران کا قاضی مقرر کیاگیا۔ دیگر اَکابِرین کے علاوہ آپ نے حضرت سیّدنا امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے جلیل القدر شاگرد حضرت سیّدنا امام محمدرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بھی اِکتسابِِ فیض کیا۔ علومِ مُرَوَّجہ کی تکمیل کے دوران عراق ہی سے آپ نے اپنی فقہ (یعنی فقہِ شافعی) کی تَروِیج و تَدوین کا آغاز فرمایا۔ آپ نے ہی سب سے پہلے اصول ِ فقہ کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی نیز ابوابِِ فقہ اور اس کے مسائل کی دَرَجَہ بَندی فرمائی۔حضرت سیّدنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے دَرْس و تَدریس اور تَصانیف کے ذریعے علمِ دین کی خوب اِشاعت فرمائی جس کا فیضان آج تک جاری ہے، آپ کی تَصانیف میں کتاب ”الاُمّ“، ”اَلرِّسالَۃ“، ”اِخْتِلافُ الْحَدِیث“، ”اَدَبُ الْقاضی“ اور ”اَلسَّبَق و الرَّمْی“ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
مُجْتَہدِ وقت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نہایت عبادت گزار اور قراٰنِ پاک کی کثْرت سے تِلاوت کرنے والے تھے، آپ روزانہ ایک قراٰنِ پاک اور رمضانُ المبارک میں ساٹھ قراٰن مجید کا ختم فرماتے۔ آپ نہایت خوش آواز قاریِ قراٰن تھے، آپ کی تلاوت سن کر لوگوں پر رِقّت طاری ہو جاتی تھی۔

زُہد و قَناعت میں بھی سیّدنا امام شافعی کا اعلیٰ مقام تھا،چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: میں نےسولہ سال سےکبھی سیر ہو کرکھانا نہیں کھایا۔آپ کی شرافت و عظمت کا شہرہ زبانِ زدِ عام تھا یہاں تک کہ اُس دور کے صاحِبانِ کمال نے بھی آپ کے فَضائل و مَناقِب بیان فرمائے، چنانچہ حضرت سیّدنا سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں: امام شافعی(علیہ رحمۃ اللہ الکافی) اپنے زمانے کے اَفراد میں سب سے اَفضل ہیں۔ حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی دنیا کے لئے سورج اور لوگوں کے لئےخیر و عافیَّت کی طرح ہیں جس طرح ان دونوں کا کوئی مُتَبادِل نہیں اسی طرح ا ن کا بھی کوئی مُتَبادِل نہیں۔
زندگی کی ۵۴ بہاریں دیکھنے کے بعد علم و فضل کا یہ چمکتا سورج ۳۰ رجب ۲۰۴ھ جمعرات کی رات کو مصر میں غروب ہوا۔
Hazrat Sayyiduna Imam Shafi R.A[حضرت سیّدنا  امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت سیّدنا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزار مبارَک جبل مقطم کے قریب قَرافہ صغریٰ (قاہرہ مصر) میں مَرجعِ عوام وخواص ہے ۔
islamic events © 2020,

Wednesday, February 26, 2020

Hazrat Dawood AS kis Tarah Badshah Banay[حضرت داؤد علیہ السلام کس طرح بادشاہ بنے؟]

Hazrat Dawood AS kis Tarah Badshah Banay[حضرت داؤد علیہ السلام کس طرح بادشاہ بنے؟]

حضرت داؤد علیہ السلام کس طرح بادشاہ بنے؟


جب طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ ""جالوت""سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے۔ جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت ہی طاقتور بادشاہ تھا وہ اپنے سر پر لوہے کی جو ٹوپی پہنتا تھا اس کا وزن تین سو رطل تھا۔ جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں یہ اعلان فرما دیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کریگا، میں اپنی شہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا۔ اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔
یہ فرمان شاہی سن کر حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے جو ابھی بہت ہی کمسن تھے اور بیماری سے چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور غربت و مفلسی کا یہ عالم تھا کہ بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے۔ روایت ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام گھر سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو راستہ میں ایک پتھر یہ بولا کہ اے حضرت داؤد! مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھرہوں۔ پھر دوسرے پتھر نے آپ کو پکارا کہ اے حضرت داؤد مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کا پتھر ہوں۔ پھر ایک تیسرے پتھر نے آپ کو پکار کر عرض کیا کہ اے حضرت داؤد علیہ السلام مجھے اٹھا لیجئے کیونکہ میں جالوت کا قاتل ہوں۔

آپ علیہ السلام نے ان تینوں پتھروں کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داؤد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر صفوں سے آگے بڑھے اور جب جالوت پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے ان تینوں پتھروں کو اپنی گوپھن میں رکھ کر اور بسم اللہ پڑھ کر گوپھن سے تینوں پتھروں کو جالوت کے اوپر پھینکا اور یہ تینوں پتھر جا کر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کر کے سر کے پیچھے سے نکل کر تیس جالوتیوں کو لگے اور سب کے سب مقتول ہو کر گر پڑے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لا کر اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے قدموں میں ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔
جالوت کے قتل ہوجانے سے اس کا لشکر بھاگ نکلاا ور حضرت طالوت کو فتح مبین ہو گئی اور اپنے اعلان کے مطابق حضرت طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیا اوراپنی آدھی سلطنت کا ان کو سلطان بنا دیا۔ پھر پورے چالیس برس کے بعد جب حضرت طالوت بادشاہ کا انتقال ہو گیا تو حضرت داؤد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شمویل علیہ السلام کی وفات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔ آپ سے پہلے سلطنت اور نبوت دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملا تھا۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ ان دونوں عہدوں پر فائز ہو کر ستر برس تک سلطنت اور نبوت دونوں منصبوں کے فرائض پورے کرتے رہے اور پھر آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور نبوت دونوں مرتبوں سے سرفراز فرمایا۔ (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۳۰۸،پ۲،البقرۃ۲۵۱)۔

اس واقعہ کا اجمالی بیان قرآن مجید کی سورئہ بقرہ میں اس طرح ہے کہ:۔
وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔(پ۲،البقرۃ:۲۵۱)۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجودیکہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔(روح البیان،ج۱،ص۳۹۱،پ۲،البقرۃ:۲۵۱)۔
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ  
islamic events © 2020,

Thursday, February 20, 2020

Hazrat Imam-ul-Muslimeen Syedna Imam Ali Naqi R.A[حضرت امام المسلمین سیدنا امام علی نقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ]

Hazrat Imam-ul-Muslimeen Syedna Imam Ali Naqi R.A[حضرت امام المسلمین سیدنا امام علی نقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ]

حضرت امام المسلمین سیدنا امام علی نقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ


امام علی نقی کانام علی، کنیت ابو الحسن ثالث، لقب نقی، ہادی، زکی، عسکری، متوکل، ناصِح مرتضیٰ، فقیہ، امین، طیّب، بروز جمعہ ۱۳؍ رجب ۲۱۴ھ کو ام ولد حضرت ثمانہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے بمقام مدینہ طیّبہ پیدا ہوئے۔
علم و سخاوت میں وارث اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ کے تھے، اور جملہ حالات میں مثل آبائے کرام رضی اللہ عنہ تھے، لباس پشمین پہنتے، اِن کے مناقب و اوصاف حدّ حصر سے افزوں ہیں۔
حضرت نقی ایک دن رے کے دیہات میں تشریف لے گئے۔ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی کہ میرے ذمّہ ایک بہت بڑا قرضہ ہے کہ میں اس کے ادا کرنے سے قاصر ہُوں۔ حضرت امام اس کی بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ ایک تمسک تیس ہزار کا لکھ دیا اور اپنی مُہر چسپاں کردی اور اس کے حوالے کرتے ہُوئے کہا کل جب میں امراء میں بیٹھا ہوا ہوں لے آنا اور شدید تقاضا کرنا اور بیشک درشت کلامی بھی کر لینا اور اس تدبیر سے تمہارا قرضہ بیباق کرنے میں مدد مل جائے گی۔ دیہاتی نے تمسک تھام لیا اور چلا گیا۔

ایک دن خلیفہ بغداد کو ملنے کے لیے بہت سی مخلوق آئی ہوئی تھی۔ مجلس جمی ہوئی تھی۔ اعرابی آگیا اور تمسک نامہ پیش کیا اور تیس ہزار روپے کا تقاضا کرنے لگا اور سخت توہین آمیز الفاظ استعمال کرتا رہا۔ حضرت امام نے بڑی نرمی سے اسے ٹالا اور سہولت کے ساتھ ادائیگی کا وعدہ کرلیا۔ خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی۔ تیس ہزار روپیہ خزانے سے منگوا کر حضرت امام کی خدمت میں رکھا اور یُوں آپ نے اس دیہاتی کو دے کر روانہ کیا۔
پہلے سیدنا امام علی نقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قیام مدینہ منوّرہ میں تھا، خلیفہ متوکل بگمانِ خروج اِن کو بغداد لے گیا، وہاں بغداد کے متصل شہر سرمن رائے المعروف عسکر میں انہوں نے سکونت اختیار کی۔
حضرت امام المسلمین سیدنا امام علی نقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۲۵؍ جمادی الآخر ۲۵۴ھ کو انتقال فرمایا، اور سرمن رائے میں مدفون ہوئے۔وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس یا اکتالیس سال تھی۔
islamic events © 2020,

Monday, February 10, 2020

Valentine Day(Barbadi Day)[ویلنٹائن ڈے(بربادی ڈے)۔]

Valentine Day(Barbadi Day)[ویلنٹائن ڈے(بربادی ڈے)۔]

ویلنٹائن ڈے(بربادی ڈے)۔


فی زمانہ ترقی اور روشن خیالی کے نام پر بے حیائی اور اخلاقی برائیوں کو خوب فروغ دیا جارہا ہے۔ محبت کے عالمی دن کے نام پر ہر سال ۱۴ فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے بھی اسی سلسلے کی ایک کَڑی ہے، جو دَرحقیقت مَحبت کے نام پر بربادی کا دن ہے ۔ ویلنٹائن نامی غیر مسلم کی یاد میں منائے جانے والے اس دن کو غیر اَخلاقی حرکات اور اَحکامِ شریعت کی کھلم کھلاخلاف ورزی کا مجموعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ویلنٹائن ڈے کی نحوست سے خود کو دور رکھئے۔
اس دن بالخصوص مخلوط تعلیمی اداروں میں بے پردگی و بے حیائی کے ساتھ اَجنبی مَردوں اور عورتوں کا میل مِلاپ ہوتا ہے، حالانکہ حدیثِ پاک میں اس کی مَذمّت یوں بیان کی گئی ہے کہ کسی کے سَر میں لوہے کی سُوئی گھونپ دی جائے یہ اجنبی عورت کو چھونے سے بہتر ہے(معجم کبیر)۔ لڑکے لڑکیاں تحائف اور پھول خرید کر نامحرموں کو پیش کرتے ہیں اور اپنی ناجائز محبت کا اظہار کرتے ہیں،حدیث پاک میں ہے: ہاتھ اور پاؤں بھی بَدکاری کرتے ہیں اور ان کا بَدکاری (حَرام) پکڑنا اور (حَرام کی طرف) چل کرجانا ہے (مسلم)۔ اس دن رَنگ رَلیاں مَنانےکیلئے شراب اور نَشہ آور چیزوں کا بے تَحاشہ(بہت زیادہ) اِستعمال کیا جاتاہے، جبکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص شَراب کا ایک گُھونٹ بھی پئے گا، اُسے اس کی مِثل جہنَّم کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا (معجم ِکبیر)۔

ویلنٹائن ڈے کو مَنانے کیلئے جہاں چھوٹے پیمانے پر گانے باجے،مُوسیقی بجائی جاتی ہے، وہیں بڑے پیمانے پرمیوزیکل پروگرامز اور فنکشنز کا بھی اِہتمام کیا جاتا ہے، جبکہ روایت میں ہے کہ جو شخص کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سُنتا ہے قیامت کے دن اس کے کانوں میں پِگھلا ہوا سِیسہ اُنڈیلا جائے گا (جمع الجوامع) ۔اس دن بَدکاری کو فَروغ مِلتا ہے، جس کی وجہ سے ایڈز نامی مُہلک مرض پھیلتا جارہا ہے، ڈاکٹرز کے مُطابق’’ایڈز‘‘ جیسی خطرناک بیماری اِسی بَدکاری کا نَتیجہ ہے۔قُراٰنِ پاک میں بَد کاری تو دُور، اس فعلِ بَد کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔ چُنانچہ اِرشادِ خُداوندی ہے:( وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا) تَرجَمَۂ کَنزُ الاِیمَان:اور بَد کاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ۱۵، بنی اسرائیل:۳۲) افسوس ’’ویلنٹائن ڈے‘‘کے موقع پر لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رَسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کے کاموں پر خوشی کا اِظہار کرتے ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں غیرمُسلموں کے ہر انداز و طریقۂ کار کو چھوڑ کر، اِسلامی شِعار (طریقہ ) و عادات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
islamic events © 2020,

Thursday, February 6, 2020

Zaban[زبان]

Zaban[زبان]

زبان


زبان کا اچھا استعمال جنّت میں جانے کا ذریعہ جبکہ اس کا غلط استعمال ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے، کسی بڑے برتن کے اندر کئی طرح کے پھول رکھے ہوں اور اس کا ڈھکن کھولا جائے تو ان پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے، یوں ہی اگر کسی گٹر کا ڈھکن کھولا جائے تو بدبو کے اس قدر بھبکے اٹھتے ہیں کہ جس سے آس پاس کا خوشگوار ماحول بھی متأثر ہونے لگتا ہے، اسی طرح انسان جب بولتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کا تعارف پیش کررہا ہوتا ہے، اس کے الفاظ اس کی سمجھداری، معلومات اور کردار کا پتا دیتے ہیں، جن لوگوں کا باطن میٹھے مدینے کے مدنی پھولوں سے مہکتا ہو، عشقِ مصطفےٰ (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے جن کا سینہ رچا بسا ہو وہ جب لب کھولتے اور بولتے ہیں تو شمعِ رسالت (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پروانے کھنچے چلے آتے ہیں، لیکن بعض لوگ جب بولتے ہیں تو ان کی گفتگو اتنی فحش و بےحیائی سے بھرپور ہوتی ہے جیسے گٹر کا ڈھکن کھل گیا ہو یا ایسے بولتے ہیں جیسے دلوں پر تیر چلا رہے ہوں کیونکہ ان کی گفتگو طعنہ زنی اور دل آزاری پر مشتمل ہوتی ہے۔
انسان کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، جیسا مقصد ویسی گفتگو، اگر سامنے والے کا دل خوش کرکے ثواب کمانے کا ارادہ ہو تو گفتگو بھی اچھے اور ستھرے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، اگر مخاطَب پر غصہ اتارنا مقصود ہے یا اسے طعنہ دینے، نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے جیسے گناہوں بھرے مَقاصِد ہوں تو گفتگو بھی ان ہی الفاظ پر مشتمل ہوگی، نتیجۃً اس سے مخاطب کا دل پارہ پارہ ہوجائے گا۔

عام طور پر جن لوگوں کو کسی پر تسلط حاصل ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں تو تولتے نہیں، نتیجۃً ایسوں کی گفتگو مخاطَبین (سامنے والوں) کے دلوں پر تیر برسنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً ٹیچر کی اسٹوڈنٹ سے گفتگو، والدین کی اولاد سے، نگران کی ماتحت سے، سیٹھ کی نوکر سے، شوہر کی بیوی سے، مالک مکان کی کرائے دار سے۔ پھر زبان کا دُرست استعمال نہ کرنے والوں کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہر وقت ٹینشن کے شکار، تکالیف میں مبتلا، اداسی ان کے چہروں پر چھائی رہتی، ان کی مسکراہٹ پھیکی پھیکی سی اور کم دورانیہ والی ہوتی ہے، لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے، جو مجبوری کی وجہ سے قریب ہوتے ہیں وہ دور ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
لہٰذا یہ سوچنا ضَروری ہے کہ میرے بولنے کا مقصد کیا ہے، کسی کا دل دُکھانا یا خوش کرنا، گالی دینا یا دعا دینا، کسی کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے لئے ترقّی کی راہیں ہموار کرنا یا پھر کسی کی حوصلہ شکنی کرکے اسے ناکارہ بنا دینا وغیرہ، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ جس طرح ہم اپنے ہاتھ کو چلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کو لگ نہ جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہوجائے تو اسی طرح زبان کے استعمال سے پہلے بھی ہمیں سوچنا اور ”پہلے تولو! بعد میں بولو!“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرما کر پہلے تولنے اور بعد میں بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن
islamic events © 2020,

Saturday, February 1, 2020

Allama Qari Muhammad Muslihuddin Siddiqui Alaihi Rehma[علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ]

Allama Qari Muhammad Muslihuddin Siddiqui Alaihi Rehma[علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی  علیہ الرحمہ]

حضرت علامہ حافظ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ


مصلح اہل سنت پیر طریقت حضرت علامہ حافظ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ ۱۱؍ربیع الاول ۱۳۳٦ھ کو قندھار شریف ضلع ناندھیڑ حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے، آپ کے آباؤ اجداد شرفائے دکن میں سے تھے اور صدیوں سے دینِ متین کی خدمت کافریضہ سرانجام دیتے آرہے تھے۔
آپ رحمتہ اﷲ علیہ کے والد ماجد مولانا غلام جیلانی علیہ الرحمہ نے حیدرآباد دکن میں ۵۵سال تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے ۔ کراچی میں ۱۹۵۵میں آپ کا وصال ہوا اور میوہ شاہ قبرستان میں تدفین ہوئی، اپنے والدماجد حضرت مولانا غلام جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ سے قرآن حکیم حفظ کیا تقریباً سترہ برس کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر مدرسہ مصباح العلوم مباکپور اعظم گڑھ میں علوم اسلامیہ کی تحصیل کا آغاز کیااور حضرت حافظ ملت ، حافظ عبدالعزیز محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ کی زیر نگرانی آٹھ برس میں تکمیل کی اس کے بعد حافظ ملت آپ کو صدرالشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں لے گئے ۔وہاں آپ حضرت صدرالشریعہ سے بیعت ہوئے اور پھرکچھ عرصہ بعد حضرت صدرالشریعہ نے آپ کو تمام سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی۔

تحصیل علم کے بعدآپ رحمۃ اﷲ علیہ نے ناگپور کی جامع مسجد میں امامت و خطابت فرمائی نیز جامعہ عربیہ ناگپور میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں، کچھ عرصہ سکندرآباد حیدرآباد دکن کی جامع مسجد میں بھی خطابت فرمائی، ۱۹۴۹ء میں آپ رحمۃ اﷲ علیہ پاکستان تشریف لائے اور اخوند مسجد کھارادر میں خطیب و امام رہے پھر لوگوں کے بے حد اصرار پر آپ جامع میمن مسجد کھوڑی گارڈن تشریف لائے۔ یہاں آپ کے پاس سینکڑوں عقیدتمندوں اورحاجتمندوں کا ہجوم رہنے لگا اور آپ نے اسے رضائے الہٰی سمجھ کر اسی جگہ مستقل قیام فرمایا ۔ مصلح اہل سنت نے ڈیڑھ سال جامع مسجد واہ کینٹ راولپنڈی میں امامت و خطابت کی۔نیز دارالعلوم مظہر یہ آرام باغ اور اس کے بعد دارالعلوم امجدیہ میں وصال سے پہلے تک تدریسی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے ۔
حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ پاکستان میں سلسلۂ قادریہ کے ممتاز و معروف روحانی پیشواء تھے۔ آپ کو سلسلہ قادریہ، رضویہ، سنوسیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور اشرفیہ میں حضرت صدرالشریعہ کے علاوہ شہزاۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مولانا الشاہ مصطفی رضا خان بریلوی اور قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی علیہما الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔

علامہ مصلح الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ زہد و تقویٰ اور پرہیز گاری ،حلم اور برد باری کا کامل نمونہ تھے شفقت و محبت کا منبع آپ کی ذات گرامی تھی۔ قاری صاحب علماء کرام میں اپنا منفرد اور بے مثال مقام رکھتے تھے آپ سچے عاشق رسول ﷺاور صاحب کمال دینی و روحانی بزرگ تھے دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور عقائد اہلسنّت کی سر بلندی کیلئے آپ نے جو خدمات انجام دیں انہیں مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت علامہ حافظ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ کا وصال ۷؍جمادی الثانی ۱۴۰۳ھ، کو کراچی میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختررضاخاں بریلوی دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی۔
Allama Qari Muhammad Muslihuddin Siddiqui Alaihi Rehma[علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی  علیہ الرحمہ]
جوڑیا بازار سے متصل کھوڑی گارڈن ( موجودہ مصلح الدین گارڈن)میں آپ کا مزارِ مقدس واقع ہے اﷲ تبارک وتعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے مزار پر انوار پر رحمتوں کی بارش فرمائے۔آمین
islamic events © 2020,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...