Monday, June 22, 2020

Zul Qadah[ذوالقعدہ]

Zul Qadah[ذوالقعدہ]

ماہ ذوالقعدہ


اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔ یہ پہلا مہینہ ہے جس میں جنگ و قتال حرام ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔ اور اس مہینہ میں بھی عرب لوگ جنگ و قتال سے بیٹھ جاتے تھے۔ یعنی جنگ سے باز رہتے تھے۔ اس لیے اس کا نام ذُوالقعدہ رکھا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آیا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔ سال؛ بارہ مہینوں کاہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے ادب واحترام والے ہیں۔جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں؛ ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم الحرام۔ ایک مہینہ مضر کا رجب ہے، جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔

ذوالقعدہ کے خصائص میں سے ایک بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا ہوئے ، سوائے اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے ملا ہوا تھا پھر بھی آپ نے اس عمرے کا احرام ذوالقعدہ ہی میں باندھا تھا لیکن اس عمرے کی ادائیگی آپ نے ماہِ ذوالحجہ میں اپنے حج کے ساتھ کی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں سب سے پہلا عمرہ عمرۂ حدیبیہ کہلاتا ہے جو پورا نہ ہوسکاتھا بلکہ آپ حدیبیہ کے مقام پر حلال ہوکر واپس تشریف لے آئے تھے۔ پھر اس عمرے کی قضاء اگلے سال فرمائی تھی (یہ آپ کا دوسرا عمرہ کہلایا) تیسرا عمرہ ، عمرۂ جعرانہ کہلایا جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ادا فرمایا۔ جس وقت حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ شوال کے آخر میں ہوا تھا۔ لیکن مشہور قول یہی ہے کہ یہ ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ چوتھا اور آخری عمرہ حجۃ الوداع میں ہوا تھا جیسا کہ اس بارے میں نصوصِ صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور جمہور علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
ذو القعدہ کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جن تیس دن اور دس دنوں کا وعدہ فرمایا تھا،وہ تیس دن یہی ماہِ ذوالقعدہ اور دس دن ماہِ ذی الحجہ کے ہیں۔اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیّدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیّدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔

ماہ ذوالقعدہ کے روزے و نوافل


حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس مہینہ کے اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایاکہ اس مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔

جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار کعات نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ۳۳ دفعہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ، جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دو ۲ رکعات نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار۴ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اکیس۲۱ بار(سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو کوئی جمعرات کے دن اس مہینہ میں سو ۱۰۰ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد دس ۱۰مرتبہ (سورۃ الاخلاص) یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔
islamic events © 2020,

Saturday, June 6, 2020

Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]

Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]

سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ


رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی ولادت راجح قول کے مطابق نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و جمیل تھے، شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔
ایک مرتبہ حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔

گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔
پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔ایک مرتبہ حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، سیّد الشُّہَداء نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔

سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ۱۵ شوّالُ المکرم ۳ہجری غزوۂ اُحد میں نہایت بے جگری سے لڑے اور ۳۱کفار کو جہنّم واصِل کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔دشمنوں نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ناک اور کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم

یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!شہدائے احدمیں سب سے پہلے سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد ہیں اور کوئی آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا شریک نہیں ہے۔
Syed Ul Shuhada Hazrat Ameer Hamza R.A[سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ]
جبلِ اُحد کے دامَن میں سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔
islamic events © 2020,

Friday, June 5, 2020

Ghazwa E Uhad[غزوۂ اُحُد]

Ghazwa E Uhad[غزوۂ اُحُد]

غزوۂ اُحُد


غزوۂ بدر میں شکست کھانے کے بعدکفارِ مکہ انتقام کی آگ میں جَل رہے تھے چنانچہ اگلے ہی سال ۳ ہجری ماہِ شوال المکرم میں انتقام کا یہ لاوا اُبل پڑا جس کے نتیجے میں غزوۂ اُحُد پیش آیا۔ اس جنگ میں کفارِ مکہ بڑے جوش وجذبے سے آئے تھے، آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا، زبانوں پر انتقام! انتقام! کے نعرے تھے۔
غزوۂ اُحُد میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔منافقوں کا سردار عبْدُاللہ بن ابی بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن”شَوْط“ نامی مقام پر اپنے ۳۰۰ ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا،یوں اسلامی لشکر کی تعداد ۷۰۰ ہوگئی۔

غزوۂ اُحُد میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔منافقوں کا سردار عبْدُاللہ بن ابی بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن”شَوْط“ نامی مقام پر اپنے ۳۰۰ ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا،یوں اسلامی لشکر کی تعداد ۷۰۰ ہوگئی۔
اس جنگ کے دوران امام الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رُخِ انور زخمی ہوگیا اور سامنے والے ایک دانت مبارک کا تھوڑا سا کنارہ بھی شہید ہوا۔


صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرضوان کی حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کسی دلیل کی محتاج نہیں، جب جانِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زخمی ہوکر زمین پر جلوہ فرما ہوئے تو ہر طرف بے چینی پھیل گئی، صحابۂ کرام کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دیدار نہیں ہو رہا تھا! اسی دوران شیطان نے افواہ اُڑادی کہ (مَعَاذَاللہ) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم شہید ہوگئے ہیں، اس آواز سے مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے۔
پھر جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہوئے اور سب کو معلوم ہوا کہ شہادت کی خبر جھوٹی تھی تو کفار نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر تیروں کی بوچھاڑ کردی، حضرت ابو دُجَانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے آگے ڈھال بن گئے، حضرت زیاد بن سَکَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ چند انصاریوں کو لے کر بڑھے، اپنی جانیں قربان کردیں لیکن کسی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قریب نہ آنے دیا۔
الغرض! غزوۂ احد میں صحابۂ کرام نے جانثاری کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج بھی اوراقِ تاریخ پر جگمگا رہی ہیں۔
islamic events © 2020,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...